’ہم جیسوں کے دن آتے ہیں تو موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے‘۔نوجوان سول سرونٹ بلال پاشا کی خودکشی پر بھارتی اداکار مرحوم عرفان خان سے منسوب یہ جملہ یوں پیش کیا جارہا ہے جیسے مرنے والے نے کوئی تابندہ و درخشندہ روایت چھوڑ ی ہو ۔اس سے پہلے جس طرح ایک عالم دین کے جواں سال بیٹے کی خودکشی کے فضائل بیان کیے گئے اور اب اس نوجوان افسر کی مرگ ناگہانی کو جس انداز میں پیش کیا جارہا ہے،اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے عیش و عشرت بھری زندگی سے غم واندوہ کشید کرنا اور پھر اس زہریلے جام پر ذہنی دبائو کا لیبل چسپاں کرکے موت کو گلے لگالینا کوئی قابل تعریف کارنامہ ہے۔شاید اسی نوعیت کی پذیرائی کے سبب معاشرے میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران کئی سرکاری افسروں نے اس راستے کا انتخاب کیا۔جنوری 2022ء میں اسی طرح کا ایک واقعہ تب پیش آیا جب ایڈیشنل کمشنر ریویونیو عمران رضا عباسی نے لاہور میں پھندہ لیکر خودکشی کرلی۔ان کا ایک دن پہلے لاہور تبادلہ ہوا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر انہوں نے چھت والے پھنکے سے لٹک کر اپنی جان لے لی۔ نومبر 2021ء میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید فرمان باچا کے بارے میں خبر ملی کہ انہوں نے خودکشی کر لی ہے۔ دسمبر 2020ء میں ایک سینئر بیورو کریٹ خرم ہمایوں جو گریڈ 22 کے آفیسر تھے اور کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر تعینات تھے، انہوں نے اپنی پیشانی میں گولی داغ کر خود کشی کر لی۔ جنوری2020ء میں ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ، جو روات میں پولیس ٹریننگ اسکول کے پرنسپل کے طور پر تعینات تھے، نے سروس پسٹل سے خود کشی کر لی۔ اسی طرح مارچ 2018ء میں ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل ٹیپو کی پنکھے سے جھولتی لاش برآمد ہوئی۔ جون 2016ء میں ایس ایس پی جعفر آباد جہانزیب خان کاکڑ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ پے درپے رونما ہوتے ان افسوسناک واقعات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
میری اس نوجوان بلال پاشا سے کسی قسم کی شناسائی نہیں تھی مگر اس کے والدین کا سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نوجوان نے خانیوال کے قصبہ عبدالحکیم کے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ ان کے والد احمد یار کے پانچ بیٹوں میں بلال سب سے چھوٹا تھا جسے اس کے چچا بشیر احمد نے اولاد نہ ہونے کے سبب گود لے لیا تھا۔ 2019ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تب مرکز نگاہ بنے جب انہوں نے گائوں میں اینٹوں کی دیوار کے پاس اپنے چچا اور منہ بولے والد بشیر احمد کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی جہد مسلسل اور کامیابی کی داستان سنائی۔ اس نے بتایا کہ خاندان میں محض دو یا تین لوگوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے۔ میں نے ایک مسجد میں قائم مکتب اسکول سے پرائمری تعلیم حاصل کی۔ پھر سرکاری اسکول اور کالج سے میٹرک اور ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ میں اس اسکول سے پڑھا ہوں جہاں چھٹی جماعت سے چھوٹی اور بڑی اے بی سی پڑھائی جاتی ہے۔ میرے والد اور والدہ دونوں نے ہی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ یہ میرے قابل فخر والد بشیر احمد ہیں، جنہوں نے ساری زندگی مزدوری کی ہے۔ الحمدللہ مجھے بہت فخر ہے کہ میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں۔ اس موقع پر ان کے والد نے پنجابی میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اس طرح کے بیٹے ہوں تو تھکاوٹ اُتر جاتی ہے۔
بلال پاشا نے بہت مشکل حالات دیکھے، گزر بسر کیلئےمعمولی نوعیت کی ملازمتیں کیں، پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوا، مگر خوابوں کا تعاقب جاری رکھا، 17ویں گریڈ کی مختلف سرکاری نوکریاں کیں، آخر کار کامیابی نے قدم چومے اور سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ میں بطور سول سرونٹ شاندار کیرئیر کا آغاز کیا۔ ان کی کامیابی کے بعد یہ مثالیں دی جاتی رہیں کہ محض بڑے اور بااثر خاندانوں کے چشم و چراغ ہی CSS نہیں کر سکتے، پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے غریب گھرانوں کے بچے بھی سول سرونٹ بن سکتے ہیں۔ نیلی بتی اور سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی ملی تو اچھے گھرانے میں شادی بھی ہو گئی۔ ان کی سابقہ اہلیہ جن سے کچھ عرصہ قبل علیحدگی ہوئی، بتایا جاتا ہے کہ وہ راولپنڈی میں تعینات ہیں۔ ابھی چند روز قبل بلال پاشا کو بنوں سے راولپنڈی تعینات کیا گیا تھا مگر انہوں نے چارج چھوڑ کر یہاں آنے کے بجائے دنیا ہی چھوڑ دی۔ کچھ لوگ ان کی سابقہ شریک حیات کو مطعون کر رہے ہیں۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران جس طرح کے دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ جان لیوا ثابت ہوا۔ کئی افراد کا استدلال ہے کہ ہمارے ہاں بیوروکریٹس کے پاس اختیارات اور پروٹوکول تو ہوتا ہے مگر تنخواہ میں آسائشات اور تعیشات پوری نہیں ہوتیں، جب اپنی معاشرتی حیثیت کے مطابق بچوں کا طرز زندگی بہتر نہیں کیا جا سکتا اور ایماندار افسر رشوت لینے پر بھی تیار نہیں ہوتے تو پھر ڈپریشن ہوتا ہے۔ بلال پاشا کے والد کا یہ جملہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ مرنے سے ایک ہفتہ پہلے اس نے ٹیلیفون کر کے کہا، بابا! دل چاہتا ہے، نوکری چھوڑ دوں یا چھٹی لیکر گھر آئوں تاکہ جی بھر کر سو سکوں ۔
واہ، کیا خوب تاویل ہے۔ ایک شخص غربت اور رسوائی کی پستیوں سے اُٹھ کر خوشحالی اور عظمت کی بلندیوں تک پہنچتا ہے تو اس پر اطمینان کا اظہار کرنے کے بجائے اس لیے موت کی کھائی میں کود جائے کہ اس کے آگے آسماں اور بھی ہیں؟ کتنے ہی نوجوان بے روزگاری کا زہر پیتے ہیں اور امید پر جیتے ہیں کہ کبھی تو ان کا وقت آئے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مزدور کا بیٹا افسر بن جانے کے بعد اپنی قسمت پر ناز کرے، زمانہ اسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھے، مگر خود ترحمی کا شکار وہ نوجوان خود کشی کر لیتا ہے اور سماج یہ کہہ کر اسے ہیرو بناتا ہے کہ ’’ہم جیسوں کے دن آتے ہیں تو موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے‘۔ موت نہیں ٹپک پڑتی، آپ بیچ میں ٹپک پڑتے ہیں۔ کم ازکم اس بوڑھے باپ کا ہی سوچ لیا ہوتا کہ لحد میں اُتارتے وقت اس پر کیا گزرے گی۔