جو سیاست دان انتخاب سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈے اسے اس دھندے میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ہمارے ہاں مگر ”دونمبری“ رویوںکی بھرمار ہے۔ مارچ 1977ء میں عام انتخاب ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد میں جمع ہوئی نو سیاسی جماعتوں نے انہیں بدترین دھاندلی کا مظہر بتایا۔ دھاندلی کے خلاف تحریک چلی جس کی بدولت بھٹو نئے انتخاب کو رضا مند ہوگئے۔تب اصغر خان اور ولی خان جیسے قدآور سیاستدانوں نے پیپلز پارٹی کی نیت پر سوالات اٹھا دئیے۔محاورے والی ”گوٹ پھنس“ گئی تو جنرل ضیاءکا مارشل لاء ہمارا مقدر ہوا۔
مارشل لاء لگاتے ہوئے جنرل ضیا نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ ”نوے دنوں“ کے اندر نئے انتخابات کروا دیں گے۔ان کے وعدے سے مگر پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتوں کی اکثریت گھبراگئی۔ بھٹو کو دھاندلی کے ذریعے مارچ 77ء کے انتخاب جیتنے کا طعنہ دینے والے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع ہوگئے کہ مارشل لاء کی چھتری تلے ہوئے انتخاب بھی بھٹو اور ان کی جماعت کو اکثریت حاصل کرنے سے روک نہیں پائیں گے۔جمہوریت کی بحالی لہٰذا ”مائنس بھٹو“ کے ساتھ نتھی کردی گئی۔جنرل ضیاءبھی اپنے اقتدار کو طول دینا چاہ رہے تھے۔ ان کے ذہن میں ”اسلامی نظام“ کے نفاد کا خاکہ بھی موجود تھا۔ بھٹو کو لہٰذا پھانسی لگاکر ”مائنس“ کردیا گیا اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم ٹھہرانے کے بعد ملک میں ”اسلامی نظام“ کے نفاذ اور افغانستان کو ”جہاد“ کے ذریعے کمیونسٹ نظام سے آزاد کروانے کی مہم شروع ہوگئی۔ جنرل ضیاءکی فضائی حادثے میں رحلت کے بعد 1988ء میں ہوئے انتخاب مگر طویل وقفے کے باوجود پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت کے حصول سے روک نہیں پائے۔
1977ء سے 1988ء تک کے سفر کی یاد مجھے ان دنوں بہت ستارہی ہے۔ وجہ اس کی چند مقبول صحافی ہیں جن کے وی لاگ اور کالم بہت شوق سے دیکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔لگی لپٹی رکھے بغیر میرے یہ ساتھی ”خبر“ دے رہے ہیں کہ ”مقتدر“ کہلاتی قوتوں کو بتایا جارہا ہے کہ اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت آسمان کو چھورہی ہے۔ 9 مئی کے واقعات اور ان کی وجہ سے تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نماوں کی پکڑ دھکڑ اور روپوشیاں بھی کپتان کی مقبولیت کمزور نہیں کر پائی ہیں۔تحریک انصاف کا مخالف ووٹ مختلف جماعتوں میں منقسم ہے۔آئندہ انتخاب میں تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار کے خلاف ون-آن- ون انداز میں مقابلے کو تیارنہیں۔ پنجاب میں نون لیگ تحریک انصاف کو تھلے لگاسکتی تھی۔اپریل 2022ء سے اگست 2023ء تک قائم رہی شہباز حکومت نے مگر پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے نام پر جو پالیسیاں متعارف کروائیں انہوں نے عام پاکستانی کی زندگی ا جیرن بنادی ہے۔مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ووٹروں کی اکثریت بے چینی سے منتظر ہے کہ نون لیگ کے نامزد کردہ امیدوار کے خلاف ووٹ ڈال کر اپنا غصہ اتارے۔قصہ مختصر سوشل میڈیا پر چھائے ماحول کو بنیاد بناتے ہوئے دعویٰ یہ ہورہا ہے کہ 8 فروری 2024ءکو انتخاب ہوئے تو جیل میں ہوتے ہوئے بھی عمران خان اپنے نامزد کردہ امیدواروں کو قومی ہی نہیں بلکہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں میں بھی بھاری بھر کم اکثریت دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
انتخابی حرکیات کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے میں ذاتی طورپر مذکورہ دعوے سے متفق نہیں۔ ”ہوا“ انتخابی نتائج کی سمت کا تعین کرنے میں یقینا اہم کردار ادا کرتی ہے اور ان دنوں ”ہوا“ عمران خان کی حمایت میں چل رہی ہے۔ہمارے ہاں مگر صدارتی نظام لاگو نہیں جہاں صدر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ پاکستان میں سب سے بااختیار ہونے کی تہمت (اور میں یہ لفظ طنزاََ استعمال نہیں کررہا) وزیر اعظم کے منصب پر لگائی جاتی ہے اور اگر کوئی سیاستدان وزیر اعظم منتخب ہونا چاہتا ہے تو اسے قومی اسمبلی کے انتخاب کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اپنے لئے قومی اسمبلی کا کوئی حلقہ چننے کے علاوہ وہ دیگر حلقوں سے بھی اپنی جماعت کے امیدوار کھڑے کرتا ہے۔ایک طویل عمل کی بدولت قومی اسمبلی تشکیل پاجاتی ہے تو اس کے کم از کم 172اراکین کی حمایت ہی وزیر اعظم منتخب کرتی ہے۔
9 مئی 2023ء سے قبل تحریک انصاف مجھے آئندہ انتخاب میں بآسانی سادہ اکثریت حاصل کرتی نظر آرہی تھی۔ اس دن کے بعد مگر اس کے نام نہاد الیکٹ ایبل کی گرفتاریاں اور روپوشیاں شروع ہوگئیں۔ بعدازاں ”غائب“ ہوئے یا کئے افراد کے اعترافی بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ”غائب“ ہونے کے بعد نمودار ہونے والے کئی افراد تحریک انصاف چھوڑ کر دوسری جماعتوں خاص طورپر جہانگیر ترین کی بنائی استحکام پاکستان پارٹی میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔عوامی جذبات سے قطع نظر تحریک انصاف بتدریج ایسے افراد سے محروم ہورہی ہے جو عام انتخاب لڑنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔کئی سادہ دل لوگ تاہم مجھ خبطی کو یہ سمجھاتے ہیں کہ نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ دینے کو بے چین ہے۔سمارٹ فون گھر گھر پہنچ چکے ہیں۔ان پر بنائے واٹس ایپ گروپ تحریک انصاف کے متحرک کارکنوں کو ہماری انتخابی تاریخ میں پہلی بار حیران کن نتائج دکھانے کے قابل بناچکے ہیں۔
واٹس ایپ گروپ کے حوالے سے جو منظر مجھے دکھانے کی کوشش ہوتی ہے میں اسے جھٹلانے کی حماقت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس سوال کا جواب مگر 29 نومبر2023ء کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے بھی حاصل نہیں کرپایا ہوں کہ اسلام آباد جہاں میں ان دنوں مقیم ہوں وہاں قومی اسمبلی کے جو تین حلقے ہیں ان پر تحریک انصاف کے امیدوار کون ہیں۔اسد عمر جس حلقے سے دوبار کامیاب ہوئے تھے وہاں سے اس بار کون امیدوار ہوگا۔ اس حلقے پر توجہ دیتے ہوئے کریدنا شروع کیا تو تحریک انصاف کے متوالوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کے وفادار وکیل شعیب شاہین مذکورہ حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔ ”خبر“ مگر یہ بھی اڑی کہ ڈاکٹربابر اعوان بھی اس حلقے سے قسمت آزمانا چاہ رہے ہیں۔
شعیب شاہین ٹی وی پروگراموں میں تحریک انصاف کی متحرک اور بھرپور نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ وہ مگر انتخابی میدان کے تجربہ کار کھلاڑی نہیں۔”ہوا“ ان کی حمایت میں چل بھی رہی ہو تو تحریک انصاف کے ایک اور دبنگ ترجمان اورو کیل شیر خان مروت ان کی عمران خان سے ”قربت“ کو تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے ”مشکوک“ بنا چکے ہیں۔
عمران خان سے جیل میں منگل کے روز چھ کے قریب وکلانے ملاقات کی تھی۔ مذکورہ ملاقات کے بعد مروت صاحب نے اعلان کر دیا کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے دوران عمران خان چیئرمین کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ وہ مبینہ طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت نے انہیں توشہ خانہ کیس میں انتخابی عمل کے لئے نااہل ٹھہرادیا ہے۔جب تک ان کی نااہلی کی بابت عدالتوں سے حتمی فیصلہ نہیں آتا عمران خان تحریک انصاف کا چیئرمین منتخب ہوکر اس کےلئے مشکلات کا سبب نہیں ہونا چاہ رہے۔ مروت صاحب کے دعویٰ کی لیکن ان کے ہمراہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کیلئے گئے وکلا نے فی الفور تردید جاری کرنا شروع کر دی۔
غورکیجئے جہاں یہ بات بلاخوف تردید لوگوں کے سامنے نہیں آرہی کہ عمران خان بذاتِ خود تحریک انصاف کے چیئرمین کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کو تیار ہیں یا نہیں وہاں عوام کو کیسے یقین دلایا جائے گا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہزار سے زیادہ حلقوں میں کون سا امیدوار عمران خان نے اپنی نمائندگی کے لئے چنا ہے۔”ہوا“ ایسے ماحول میں تحریک انصاف کی مدد نہیں کر پائے گی