بھارت کی ترقی کا سفر

گزشتہ مقالوں میں، میں نے تیز ترین ترقی کرنیوالے ممالک کا ذکر کیا ،جن کے نقش قدم پر چل کر ہم بھی ویسی ہی ترقی کے حامل ہوسکتےہیں ۔ ان میں چین ، کوریا اور سنگاپور سرفہرست تھے۔ آج ہم اگر نظر دوڑائیںتو وہ پڑوسی ملک جس سے ہم تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا موازنہ کرتے ہیں۔ چاہےوہ سماجی و اقتصادی معاملات ہوں یا کھیل کا میدان ہو ، سائنس و تحقیق ہو یا ٹیکنالوجی ہو تو پھر تیز ترین ترقی ،مثبت نظریوں اور پُربصیرت اقدامات میں کیوں نہیں موازنہ کرتے۔آج کا ہندوستان علم کا گہوارہ ہے ، ہندوستان اپنی موٹر گاڑیاں خود بناتا ہے ، ہماری طرح پرزے درآمد کر کے مرتب نہیں کرتا ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں ہم سے بہت آگے ہے ۔ Ayurvedic آیورویدک ادویات میں اس کا کوئی ثانی نہیں ، غرض بھارتی اقدامات کی ایسی لمبی فہرست ہے جو ہمیں ترقی کی جانب قدم اٹھانے کیلئے آمادہ کرنے کیلئے کافی ہے ۔ بس ضرورت پربصیرت قیادت کی ہے، ٹیکنوکریٹ حکومت کی ہے ، دیانتدار ور ایماندار سیاسی لیڈروں کی ہے جو محب دولت کی بجائے محب وطن ہوں ۔ ابھی حال ہی میں بھارت کی جانب سے چاند پر اتارے گئے خلائی جہاز کی خبر نے مجھےقلم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ آج بھارت نے تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کا دامن تھام کر کتنا بڑا مقام حاصل کر لیا ہے ۔ ہندوستان 23اگست 2023ءکی دوپہر کو اپنے خلائی جہاز چندریان-3 سے وکرم (Vikram) نامی خلائی گاڑی (lander) کو چاند کے جنوبی قطب پر اتارنے میں کامیاب ہوا، اس طرح ہندوستان ایسا کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا اور ایک بڑی خلائی طاقت کے طور پر امریکہ، روس اور چین کی صف میں شامل ہو گیا۔ یہ ((ISRO ہندوستانی خلائی تحقیقی ادارے (Indian Space Research Organization کیلئے ایک بہت بڑا قدم تھا۔ اب ہندوستان سیٹلائٹ پر مبنی کاروبار اور نجی خلائی لانچوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا خواہشمند ہے، اور اس کامیابی کی وجہ سے ہندوستان کے خلائی انجینئروںاور نوجوان نسل کو زبردست فروغ ملا ہے ۔ ہندوستانی خلائی تحقیقی ادارے (ISRO) کا بجٹ پچھلے سال صرف 1.5ارب ڈالر تھا، جب کہ ہندوستان کی نجی خلائی معیشت پہلے ہی 6ارب ڈالر پر ہے جبکہ2025ءتک اسکا بجٹ 25 ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔

ہندوستان میں جواہر لعل نہرو کے زمانے سے تعلیم اور سائنس کو اولین ترجیح دینے کی گہری روایت قائم رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے ہندوستانی حکومتوں نے تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی اہمیت کو سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے انتہائی اہم جزو کے طور پر تسلیم کیا جبکہ ہمارے حکمران و اشرافیہ لوٹ کھسوٹ میں لگے رہے۔ حق تعلیم کا قانون (The Right to Education Act)، جو2009 میں نافذ ہوا، ہندوستان کی تعلیمی تاریخ میں قانون سازی کا سب سے طاقتور اور نمایاں باب بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے تحت 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کیلئے تعلیم کو ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ، جس کا مقصد سب کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ہے۔ اس قانون نے ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جو بچوں کو اسکول جانے سے روکتی ہیں، جیسے کہ غربت، امتیازی سلوک اور سماجی اصول۔اس سے قبل 2001ءمیں ایک اور اہم قدم اٹھایا گیا تھا’’سروا شکشا ابھیان‘‘ (Sarva Shiksha Abhiyan)جس نے تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ اس نے ابتدائی تعلیم کو عالمگیر بنانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد کی۔ SSA نے تسلیم کیا کہ تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور سماجی اور اقتصادی تبدیلی کیلئے ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ 1990ء کی دہائی میں ہندوستان میں شروع کی گئی اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کی اسکیم ایک منفرد کوشش تھی جس میں تعلیم اور غذائیت کو یکجا کیا گیا تھا۔ اسکے ذریعے اسکول کے بچوں کو غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرناتھا، اس طرح غذائیت کی کمی کا سدباب ہوا اور اسکول میں حاضری میں بڑا اضافہ ہوا ۔ یہ اسکیم خاص طور پر کم آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کی اسکول حاضری بڑھانے میں زبردست کامیاب رہی ۔ والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں جب انہیں روزانہ کھانے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔

1968 میں قومی پالیسی برائے تعلیمNPE

((National Policy on Education نےہندوستان کے تعلیمی منظر نامے میں ایک اہم رخ اختیار کیا۔ اس پالیسی نے ملک میں تعلیم کو جدید بنانے کی بنیاد ڈالی، جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر بھرپور زور دیا گیا۔ اس کی وجہ سے متعدد تکنیکی اداروں اور تحقیقی مراکز کا قیام عمل میں آیا، جس نے ہندوستان کی سائنسی اور تکنیکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان کا ایک اور اہم اقدام “راشٹریہ مدھیامک شکشا ابھیان”

( Rashtriya Madhyamik Shksha Abhiyan ) تھا جس کا مقصد ہندوستان میں ثانوی تعلیم کے معیار کو بڑھانا تھا۔ اس نے سرکاری اسکولوں کےبنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں مدد کی، جس میں کلاس رومز، سائنس لیبارٹریوں، لائبریریوں، اور لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ بیت الخلا شامل تھے۔ اس نے ثانوی اسکولوں کیلئے اساتذہ کی بھرتی اور تربیت کو بھی ترجیح دی۔

ہندوستان نے جدت طرازی، تحقیق اور صنعتی تعاون کو فروغ دینے کیلئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ 1942میں کونسل برائے سائنسی و صنعتی تحقیق کا قیام ہندوستان کی سائنسی اور صنعتی فضیلت کے حصول میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ صنعتی تحقیق میں CSIR کی شراکتیں، خاص طور پر ڈاکٹر ماشیلکر (Dr. Mashelkar) کی دور اندیش قیادت میں، بہت زیادہ قابل ذکر رہی ہیں۔ CSIR نےکئی ٹیکنالوجیاں اور مصنوعات تیار کی ہیں اور پیٹنٹ (patent)بھی تیار کئے ہیں جس نے مختلف شعبوں بشمول ادویات سازی (pharmaceuticals)، زراعت، اور مواد سائنس (material science) کے شعبوں میں کافی کام کئے ہیں۔

پاکستان کیلئے بھارت سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی یا دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے ہمیں اپنے کردار کے بنیادی سنگ بنیاد کے طور پر دیانتداری کے ساتھ ایک قوم کی تعمیر کرنی چاہیے۔ ہمارے منصوبوں کی فہرست میں سب سے اوپر معیاری اسکول کی تعلیم ہونی چاہئے، جس میں کردار سازی پر زور دیا جائے، کیوں کہ آج ہمیں اپنی قومی سطح پر بے ایمانی کی وجہ سےسب سے بڑی ناکامی کا سامنا ہے۔ پھر ہماری اعلیٰ ترین قومی ترجیحات معیاری تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اورجدت طرازی میں ہونی چاہئیں۔ آج قوم ایک کرب میں مبتلا ہے۔ ایک نئی پربصیرت ، تکنیکی طور پر قابل اور دیانتدار قیادت اب پاکستان کیلئے واحد امید ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں