امیر حکمرانوں کا غریب ملک

وَن ہائیڈ پارک پلیس کا اقبال بظاہر بہت بلند دکھائی دیتا تھا کہ لندن کی اس شاندار اور تاریخی اہمیت کی حامل عمارت کو پہلے ہمارے پیارے وزیراعظم میاں نوازشریف کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا اور یہ تیس ملین پاؤنڈ والی عمارت اس پارس پتھر سے مَس ہوتے ہی پچاس ملین پاؤنڈ کی ہوئی اور پھرپاکستان کے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے قدموں تلے بچھ گئی۔ بس اس عمارت کی ساری اقبال مندی اور بلند بختی یہاں تک ہی تھی پھر کسی بدخواہ اور حاسد کی نظر اسے کھا گئی۔ پاکستان کی انسداد ِرشوت ستانی و نیب وغیرہ کی کارروائیوں کے عادی پاکستانیوں کو علم ہے کہ برطانوی حکومت اور قوانین غیر ممالک سے اور خصوصاً تیسری دنیا سے لوٹ مار کرکے ناجائز دولت لانے والوں کے سہولت کار بھی ہیں اور محافظ بھی اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ تاہم یہ سب ان کی صوابدید پر منحصر ہے۔
میں نے برطانیہ میں مقیم اپنے ایک دوست سے کچھ عرصہ پہلے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ادھر رہنے والے پاکستانیوں کی غالب اکثریت پُرامن بھی ہے اور مقامی قوانین پر عمل بھی کرتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا مجموعی تاثر کچھ خاص اچھا نہیں۔ وہ دوست کہنے لگا: آپ نے درست کہا‘ صورتحال یہ ہے کہ گورا ہم سے کہیں زیادہ جرائم پیشہ ذہنیت کا حامل ہے لیکن اصل فرق ہماری شارٹ کٹ کے ذریعے کام نکالنے کی ذہنیت کا ہے۔ ہم لوگ ادھر ہر قانونی کام میں کہیں نہ کہیں خرابی کا ٹانکا لگا کر اسے غیر قانونی طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر اپنا کام اور امیج دونوں خراب کر لیتے ہیں۔ ادھر کا نظام اس خرابی کو پکڑ لیتا ہے اور تمام تر قانونی کام کو غیر قانونی طریقے سے سرانجام دینے کے جرم میں ہم اندر ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف گورا ہر غیر قانونی کام کو بھی اتنے قانونی طریقے سے سرانجام دیتا ہے کہ بندہ حیران و پریشان رہ جاتا ہے۔ یہاں کا سسٹم دراصل نتائج سے زیادہ طریقہ کار کی مانیٹرنگ کر رہا ہوتا ہے‘ اس لئے ہم پھنس جاتے ہیں اور گورا نکل جاتا ہے۔
یہ ساری تمہید دراصل اس لئے بیان کی کہ برطانیہ میں کام کرنے کے دیسی اور ولائتی طریقہ کار سے آپ کو آگاہی دے سکوں۔ ہمارے سمجھدار سیاستدان اور ریٹائرڈ سرکاری افسر (سرکاری افسروں کی کیٹیگری کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں، آپ خود سمجھدار ہیں) اپنا سارا ناجائز پیسہ ادھر لانے سے بیشتر کئی دیگر چینلز سے گھما پھرا کر اور پھر تاجِ برطانیہ کے زیر انتظام چلنے والے ایسے جزائر سے جو اس قسم کی ناجائز دولت کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائز کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں‘ چکر لگوا کر ادھر لاتے ہیں اور من کی مراد پاتے ہیں۔ اگر ادھر دولت لانا اتنا ہی آسان کام ہوتا تو لوگ لندن میں خریدی گئی جائیدادوں کی فوری منی ٹریل دے کر جان چھڑوا لیتے‘ خوامخواہ قطری خطوں، دبئی کی جائیدادوں اور سعودی عرب میں اپنی سرمایہ کاری وغیرہ جیسے مختلف بیانات دے کر اپنی بھد نہ اڑواتے۔
برطانوی آخر ہمارے پرانے حاکم ہیں اور وقتاً فوقتاً ہمیں یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ ہم پر خود سے مہربان ہوں تو اور بات ہے وگرنہ ان سے رعایت لینا ہمارا حق بہرحال نہیں ہے۔ سو اس بار اللہ جانے ہمارے سابقہ حکمرانوں کے دل میں کیا آئی کہ انہوں نے وَن ہائیڈ پارک پلیس کی قیمت میں یکدم بیس ملین پاؤنڈ کے اضافے کو اس عمارت کی خوش نصیبی سمجھنے کے بجائے کسی روایتی ساس والا کردار انجام دیتے ہوئے اس میں کسی دو نمبری کی بو سونگھ کر تفتیش شروع کردی۔ برطانوی ادارے اپنی مرضی سے یعنی اپنی Sweet will سے کسی کورعایت دیے رکھیں تو اور بات ہے لیکن اگر پکڑنا چاہیں تو یہ کام بڑے آرام سے سرانجام دے سکتے ہیں کہ تیسری دنیا سے ادھر آنے والی ساری ناجائز دولت انہی چینلز سے گھوم پھر کر ہی ادھر آتی ہے جو انہی کے اپنے بنائے ہوئے ہیں‘ لہٰذا اس آنے والی دولت کا گلاکب اور کس طرح دباناہے‘ ان کے اپنے کنٹرول میں ہے۔ وہ آنکھیں بند کئے رکھیں تو اور بات ہے۔ اس بار اللہ جانے کیا ہوا کہ انگریز سرکار نے ہمارے اس پراپرٹی ٹائیکون کو گھیرنے کیلئے نیشنل کرائم ایجنسی یعنی NCA کو اس کام پر متعین کر دیا۔ یہ ان کیلئے بھلا کون سا مشکل کام تھا۔ انہوں نے اس ٹائیکون کی برطانیہ میں ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کی ایسی پراپرٹی کی نشاندہی کردی جس کو خریدنے کے ذرائع ناجائز یا مشکوک تھے اور رقم قانونی ذرائع سے منتقل نہ ہوئی تھی‘ لہٰذا برطانوی حکومت نے یہ پراپرٹی ضبط کر کے پہلے یہ اکاؤنٹ فریز کر لیے اور پراپرٹی ٹائیکون کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگا دی‘ بعد ازاں یہ اکاؤنٹ ڈی فریز کر دیے۔ عمران مخالف عناصر اس ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کے قصے پر بغلیں بجا رہے تھے کہ اب اس معاملے میں تازہ پیشرفت نے صورتحال کافی تبدیل کر دی ہے۔ یہ کیس فی الحال پاکستانی اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہے اس لئے اس کو بھی ایک طرف رہنے دیں۔ وَن ہائیڈ پارک پلیس اب تیسرے مالک کے پاس ہے اور اس میں تزئین و آرائش کا سلسلہ جاری ہے۔ شبہ ہے اب اس میں ایک عدد سوئمنگ پول بھی بن رہا ہے۔
ملک کے ساتھ وَن ہائیڈ پارک پلیس سے واپس پلٹ کر ماربل آرچ کی طرف آتے ہوئے ہم بائیں طرف ایجویئر روڈ کی طرف مڑ گئے۔ دوسرے چوک پر ملک نے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سامنے والی بلڈنگ میں پرویز مشرف کا فلیٹ تھا۔ اللہ جانے اب کس کے پاس ہے۔ بندے کی کل حقیقت یہی ہے لیکن اس فانی دنیا میں اس کی مستقبل کے بارے میں جو تیاریاں ہوتی ہیں اس پر نظر دوڑائیں تو سوائے تاسف کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ملک نے کہا کہ اس پرویز مشرف والے فلیٹ کے ساتھ والی سڑک پر مرحوم رحمان ملک کا وہ شہرہ آفاق فلیٹ تھا جہاں پیپلزپارٹی کے اجلاس ہوا کرتے تھے اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے سیاسی عروج و زوال کے فیصلے ہوتے تھے۔
ملک اس چوک میں رُک گیا اور کہنے لگا: یہ علاقہ لندن کا مہنگا ترین علاقہ ہے اور اس علاقے میں صرف انتہائی دولتمندوں کے گھر ہیں۔ اس چوک میں دائیں طرف پرویز مشرف اور رحمان ملک کے فلیٹ ہیں تو ادھر میریٹ ہوٹل کے سامنے میاں شہبازشریف کے دو عدد فلیٹ ہیں۔ Richbourn Courtپر واقع یہ فلیٹ بھی گو کہ بہت قیمتی ہیں مگر میاں نوازشریف کی لندن میں معلوم جائیداد کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ میں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں جو یہ مشہور تھا کہ میاں شریف صاحب کا ایک بیٹا امیر اور دوسرا غریب ہے تو ادھر لندن آکر یہ بات درست ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک کہنے لگا کہ یہ میرا یا تمہارا نہیں بلکہ میاں شریف مرحوم کے پوتوں کا باہمی مسئلہ ہے۔
ماربل آرچ کی دوسری طرف تھوڑی دور پورٹسمین سکوائر پر حیات ریجنسی ہوٹل ہے جہاں پاکستانی سیاستدان آکر ٹھہرتے ہیں۔ ادھر ہائیڈ پارک کی دوسری طرف نائٹس برج پر ہائیڈ پارک وَن میں کہا جاتا ہے کہ زرداری صاحب کا فلیٹ ہے جو اکیلا ہی چالیس ملین پاؤنڈ کا ہے‘ میاں نوازشریف کے دفتر والی بلڈنگ میں مخدوم احمد محمود کا فلیٹ ہے۔یہ تو صرف معلوم جائیدادیں ہیں نامعلوم اس سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ اب تمہیں یہ ضرور علم ہو گیا ہوگا کہ پاکستان کے مالی حالات اتنے خراب کیوں ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں