راجیو گاندھی ہندوستان کا وزیر اعظم بنا تھا تو اس کی عمر40 سال تھی۔ سرگئی کیریین جب روس کا پرائم منسٹر بنا تو اس وقت وہ 35برس کا تھا۔ لیووراڈکر37برس کی عمر میں آئر لینڈکا وزیر اعظم منتخب ہوا۔ اولیکسی ہونچاروک33 برس کی عمر میں یو کرین کا وزیر اعظم بنا۔ سنامارین 34 برس کی عمر میں فن لینڈکی وزیر اعظم بنی تھی۔ والڈیمار پاولک 32سال کا تھا جب پولینڈ کا وزیر اعظم بنا۔ سبسٹین کرز 31سال کی عمرمیں آسٹریا کا وزیر اعظم بن گیا۔ جیسنڈا کیٹ لاریل آرڈرن37 سال کی عمر نیوزی لینڈ کی وزیر عظم بنی۔42سالہ اینا برنا بیچ سربیا کی وزیر اعظم ہے۔42سالہ کیٹرن آئس لینڈ کی وزیر اعظم ہے۔42سالہ میٹ فریڈرکس ڈنمارک کی وزیر اعظم بنی۔بے نظیر بھٹو 35سال کی عمر میں وزیر اعظم بنی تھی۔یہ نام تو نئے زمانے کے ہیں۔ ماضی میں دیکھا جائے تو سکندر اعظم جیسے نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ جو33 سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کرکے دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ ظہیر الدین بابر 47کی عمرمیں فوت ہوا۔ جس میں فرغانہ کی حکمرانی سے لے کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا قیام تک شامل ہے۔ اکبر اعظم 14سال کی عمر میں تخت نشین ہوا تھا۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ 35سالہ بلاول بھٹو ابھی نا تجربہ کار ہے۔ یہ درست بات نہیں۔ علامہ اقبال نےکہا تھا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں 70سالہ بوڑھے سیاستدانوں کو جو گھر بیٹھنے کی تجویز دی تھی،وہ بری نہیں تھی اور پھر آصف علی زرداری کا یہ فرمانا کہ پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار بلاول بھٹو کے نہیں میرے پاس ہے۔ بلاول بھٹو کو الیکشن لڑنے کیلئے جو ٹکٹ جاری ہوگا، اُس پر بھی میرے دستخط ہونگے۔ بلاول بھٹو زرداری ابھی زیر تربیت ہے، نئی پود کی سوچ یہی ہے کہ بابا کو کچھ نہیں پتا۔یہ بحیثیت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی توہین ہے۔ زرداری صاحب کو چاہئےتھا کہ بحیثیت باپ وہ یہ تمام باتیں گھر میں بیٹھ کر بلاول بھٹو سے کہتے ۔میڈیا کے سامنے ان کی یہ گفتگو پیپلز پارٹی کے ورکرزکو قطعاً پسند نہیں آئی ۔اگربلاول بھٹو نے چترال سے اپنی بہن کو نصرت بھٹو والی سیٹ پر ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ تو کونسا غلط اعلان کیا ہے۔ اصل میں باپ کیلئے بچہ ساٹھ سال کا بھی ہو جائے تو بچہ ہی رہتا ہے۔ محترمہ نصرت بھٹو بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے متعلق ایسا خیال کرتی تھیں جس کے سبب محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی والدہ سے چیئرپرسن کا عہد ہ واپس لینا پڑگیا تھا۔
جہاں تک باپ اور بیٹے کے درمیان اختلافات کی بات ہے توایسے چھوٹے موٹے اختلافات کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔اس عمر میں باپ بچوں کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے انٹرویو کےبعد بلاول بھٹو کی سوشل میڈیا پر پروفائل پکچر کی تبدیلی کو کچھ لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے مگر وہ بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں ۔ایسے وقت میں انہیں اپنی والدہ محترمہ ہی یاد آنی چاہیے تھیں ۔یقینا ًبلاول بھٹو جس نانا کی اور جس والدہ کی وراثت لے کر سیاست کے میدان میں اترے ہیں ۔انہیں اس کا بھی کچھ خیال رکھنا ہے۔انہوں نے آخر اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا لفظ لگایا ہوا ہے، اس لفظ کے بھی کچھ اثرات ہونے ہیں ۔میرے خیال میں آصف علی زرداری کو وہی کچھ کرنا پڑے گاجو بلاول بھٹوچاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کوئی کارڈ نہیں ۔آصفہ اور بختاور بھائی کے ساتھ ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو کوچاہئے کہ وہ اپنے والد گرامی سے کہیں کہ وہ زندگی کا باقی حصہ دبئی میں گزاریں تاکہ وہ کھل کر سیاست کرسکیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹوکیلئے آصف علی زرداری کی مشاورت میں بہتری ہے مگر ایسے انٹرویو زرداری صاحب کو زیب نہیں دیتے۔ بلاول بھٹو اب بچے نہیں رہے 35برس کے ہوچکے ہیں ۔
آصف علی زرداری دوسال کے بعد 70سال کے ہونگے ۔نواز شریف دو سال کے بعد 75سال کے ہونگے۔ شہباز شریف دو سال کے بعد 74سال کے ہونگے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین دوسال کے بعد73ال کے ہونگے ۔آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ یہ میں دوسال کا عمروں کا حساب کیوں لگا رہا ہوں ۔میرے نزدیک اس ملک کا حقیقی وزیر اعظم دوسال سے پہلے منتخب نہیں ہو سکتا۔صحت تو خیر وزیر اعظم کے سارے امیدواروںکی اچھی ہے۔آصف علی زرداری ایک بار پھر ملک کے صدر بننا چاہتے ہیں ۔قومی حکومت بننے کی انہوں نے جو بات کی ہے اس میں انہیں امید واثق ہے کہ قومی حکومت کے وزیر اعظم اگر نواز شریف بنتے ہیں تو وہ صدر پاکستان ضروربن جائیں گے مگر جسے وہ قومی حکومت کہہ رہے ہیں وہ ماضی کی طرح صرف پی ڈی ایم کی حکومت ہو گی ۔بس اتنا فرق ہوگا کہ شہباز شریف کی جگہ نواز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے۔ ممکن ہے نواز شریف ایسی وزارت ِ عظمیٰ لینے پر راضی ہو جائیں مگر ذاتی طور پر مجھے ایسا کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دےرہا۔