پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کی صورت میں تحریکِ انصاف کے ٹکڑے کر دیے گئے۔ پھر اس کی ذاتی زندگی کو بری طرح ہدف بنایا گیا۔ آڈیو لیکس سامنے لائی گئیں۔ پارٹی الیکشنز کو بنیاد بنا کر اس سے اس کا انتخابی نشان بلا چھیننے کی تیاری ہے۔ اس سب کے بعد آپ عوام میں جا کر پوچھیں کہ کیا خیال ہے عمران خان کے بارے میں۔ آپ کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ اب ہاجرہ خان کی صورت میں ایک نیا وار عمران خان پہ کیا جا رہا ہے۔ ٹوئیٹر پہ ’’کپتان تو وڑ گیا‘‘ کا ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے۔ علیم خان بھی اپنا ٹرینڈ ٹوئیٹر پہ چلواتے رہتے ہیں۔ پیسہ لگا کے ٹرینڈ چلوایا جا سکتا ہے لیکن کیا دس پندرہ ہزار ٹویٹس والے یہ ٹرینڈ اس ٹرینڈ کا سامنا کر سکتے ہیں جو لوگ اپنی مرضی سے لاکھوں ٹویٹس کی صورت میں چلاتے ہیں۔
ریحام خان نے کیسے کیسے خوفناک دعوے عمران خا ن کے بارے میں کیے۔عائشہ گلالئی خان کے میسجز اینکرز کو دکھاتی رہی۔ خاور مانیکا کو پانچ سال بعد یاد آیا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ کیا حاصل ہوا؟
زخمی حالت میں تحریکِ انصاف کو انٹرا پارٹی الیکشن کا حکم دیا جا رہا ہے۔ کارکنوں اور لیڈروں کی ایک بڑی تعداد گرفتار ہے یا روپوش یا دوسری جماعتوں میں جا چکی۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں کون سے الیکشن ہوتے ہیں۔ ان حالات میں 8 فروری کے الیکشن ہو بھی گئے تو دراصل وہ الیکشن نہیں ہوں گے۔
جو لوگ نواز شریف کا تجربہ ایک بار پھر دہرانا چاہتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ایک سال بعد وہ اپنی اس غلطی پر پچھتا رہے ہوں گے۔ ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے۔ نواز شریف کیا اسے سنبھالیں گے، جب کہ ان کی ترجیح دولت ہے۔ بہتری اگر ممکن ہوتی تو پی ڈی ایم کے ذریعے نہ لے آتے۔ مقتدر حلقے کبھی زراعت کا سوچتے ہیں، کبھی صحافیوں کو معدنیات دکھائی جاتی ہیں کہ ان کو بیچ کر ہم ملک کے قرضے اتاریں گے۔ کبھی سعودی عرب سے قرضوں کی امید۔ ڈالر کا ریٹ 178سے 284تک آچکا۔
جن لوگوں نے مانیکا صاحب کو لانچ کیا، وہ خود بشریٰ بی بی کو بھی خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے پر سوچ رہے ہوں گے۔ بیوی شوہر کے خلاف بیان دے اور عدت میں نکاح سمیت ہر چیز عمران خان پہ ڈال دی جائے۔ یہ بات چمکتے سورج کی طرح روشن ہے کہ بشریٰ بی بی ایک مذہبی چکمہ تھی۔ اب صر ف وہی رہ گئی ہے، جسے عمران خان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ باقی سب کو برتا جا چکا۔
بشریٰ بی بی ایک کمزور شخصیت ہے۔ دولت کمانے کی ہوس میں اس کی بے شمار کمزوریاں مقتدر حلقوں کے علم میں ہیں، جو ریکارڈنگ کے ماہر ہیں۔ عدت میں نکاح، توشہ خانہ، خاور مانیکا انکشافات اور فرح گوگی سمیت کیا یہ بشریٰ بی بی ہی نہیں، جس نے عمران خان کیلئے انتہائی خوفناک مشکلات پیدا کیں۔ ہیروں کے سیٹ اکٹھے کرنے کا عمران خان کو تو کوئی شوق نہیں تھا۔ بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا جیسے دولت کے حریص اندر سے بہت کمزور ہوتے ہیں ورنہ ایسا کھیل کیوں کھیلتے۔ انہیں کسی بھی وقت بلیک میل کیا جا سکتا ہے لیکن عمران خان کو عائشہ گلالئی سمیت جب بھی کسی نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی، اسے ناکامی ہوئی۔ اسے توڑنے کیلئے جیل میں ڈالا تھا۔ وہ ورزش کیلئے سائیکل مانگتا پھرتا ہے۔
بشریٰ بی بی کے بیان سے کس قدر تضحیک سے عمران خان کو گزارا جا سکتا ہے۔ آخری تجزیے میں حاصل پھر بھی کچھ نہیں ہو گا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ بشریٰ بی بی کی اصلیت عمران خان پہ کھل چکی ہے یا اب تک وہ عقیدت میں مبتلا ہے۔ بشریٰ بی بی وعدہ معاف گواہ بن بھی جائے تو عمران خان بچ نکلے گا۔ سب جانتے ہیں کہ اسے دنیا کی بہترین عورتوں کا رشتہ مل سکتا تھا، اس نے مذہبی عقیدت کی وجہ سے یہ شادی کی۔ ہوس کے پجاری باقاعدہ شادیاں نہیں کرتے۔ بشریٰ بی بی ایک چلتا پھرتا عبرت کدہ ہے۔ جو لوگ دین کو استعمال کرتے ہیں دنیا کی دولت حاصل کرنے کیلئے، آخر ان کا کیا انجام ہوتا ہے۔ جو شخص بھی دین کو استعمال کرتا ہے دولت کمانے کیلئے، وہ بدنام ہوتا ہے۔ جیسے مذہبی مبلغ جھوٹے جھوٹے خواب سناتے ہیں اپنے ذاتی فائدے کیلئے اور پھر سرِ عام ذلیل ہوتے ہیں۔ وقتی طور پر تو وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم دنیا کو بے وقوف بنا لیں گے، آخر حدیث کے مطابق انسان کا ظاہر اور باطن پوری طرح مخلوق پہ کھل جاتا ہے۔
بشریٰ بی بی کے ایک طرف کھائی ہے اور دوسرا طرف گڑھا۔ عزت اسی صورت میں کسی حد تک بچ سکتی ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑی رہے۔ بے عزتی تو اب بھی بہت ہوئی ہے۔ پہلے تو تحریکِ انصاف والے یہ بات کرنے نہیں دیتے تھے کہ بشریٰ بی بی نے کچھ غلط کیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ شرعی طور پر سب کچھ ہوا ہے لیکن یہ سب شرعی طور پر نہیں ہوا۔ اگر اتفاقاً کسی عورت کی طلاق ہو جائے تو وہ دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ خصوصی طور پر دولت کمانے کیلئےایک مرد کو چھوڑ کر دوسرے سے شادی کرنا شریعت نہیں۔ جو عورت ایک مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرے سے شادی کا منصوبہ بنائے تو وہ کاہے کی روحانی شخصیت۔ خیر بشریٰ بی بی عمران خان کا ساتھ اگر چھوڑ بھی دے تو سوائے رُسوائی کے اسے کچھ نہیں ملنا۔ 8 فروری کے بعد حالات میں بہتری کی ایک موہوم سی امید باقی ہے۔ بشریٰ بی بی کو عمران خان کے ساتھ ثابت قدم رہنا چاہئے۔