خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
(علامہ اقبال)
بلاول بھٹو نے نئی نسل کی نمائندگی کرتے ہوئے ’’بابوں کو فارغ کرو‘‘کا نعرہ کیا لگایا کہ ابھی تھرتھلی مچنا ہی شروع ہوئی تھی کہ جہاندیدہ والد کی رگ پدری پھڑکی اور اس نے بلاول کے نئے بیانیے کے غبارے سے ہوا نکالنے میں دیر نہ کی۔ یہ کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا، محض نقطہ نظر کا اختلاف تھا۔ بلاول اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی راہ پہ چلنا چاہ رہے ہیں تو زخم خوردہ آصف زرداری عملیت پسندی کے پیش نظر اپنے آخری مورچے سندھ کو بچانے کی فکر میں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے سیاسی مستقبل کی فکر کرے، بھلے سندھ بھی ہاتھ سے نکل جائے یا پھر مقبولیت حاصل کرنے کی بجائے قبولیت کی سیاست اپنائے۔ سطحی طورپر اسے گڈ کاپ، بیڈ کاپ کا نام دیا جارہا ہے لیکن آصف زرداری بھانپ گئے ہیں کہ سندھ میں بھی انکے خلاف محاذ گرم کیا جاچکا ہے، جسے بچانے کیلئے وہ کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں، جبکہ بلاول عوامی مقبولیت کے سر پر پیپلزپارٹی کو دوبارہ فعال کرنے پہ مصر ہیں۔
بھٹوز کی تاریخ بھی بڑی ہنگامہ خیز رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے والد شاہنوازبھٹو سے قطعی مختلف اور جذباتی طور پر اپنی ماں سے زیادہ قریب تھے، غریبوں سے وابستگی انہیں اپنی ماں سے ملی تھی۔ فقط 51 برس کی زندگی میں وہ بڑے بڑے کارنامے اور ہنگامے بپا کرگئے ۔تیس برس کی عمر میں کم عمر وزیر بننے اور کامیاب وزیر خارجہ رہنے کے بعد انہوں نے اپنے باس سے بغاوت کی اور اگلے تین برس میں مغربی پاکستان کی پہلی سب سے بڑی عوامی پارٹی بنا کر، 1968 کی عوامی تحریک کے زور پہ ایوب آمریت کے طاقتور بت کو پاش پاش کردیا اور انتخابات میں بڑے بڑے برج اُلٹا کر پہلے منتخب صدر اور کامیاب وزیراعظم رہنے کے بعد 51 برس کی عمر میں جام شہادت نوش کرکے اپنا نام تاریخ کے صفحات میں رقم کر کے دنیا سے کوچ کرگئے۔ انکے دونوں بیٹے بھی قابل فخر باپ کی لاج رکھنے کی جہد میں قربان ہوگئے۔ البتہ بے نظیر بھٹو نے اپنی حکمت، بردباری، ذہانت اور حوصلہ مندی سے بھٹو کی روایت کو ایک نئی جمہوری جلا بخشی۔ بدلتے زمانے کو بھانپتے ہوئے بی بی شہید نے پیپلزپارٹی کو جہاں الذولفقار کی شدت پسندی سے دور رکھا، وہیں سماجی آزاد خیالی (Social Liberalism) اور جمہوری رواداری و پاسداری کو فروغ دیا اور عوامی حمایت سے جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کے خلاف لمبی جمہوری جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ لیکن مقتدرہ نے انہیں چلنے نہ دیا اور انکی دونوں حکومتوں کو چلتا کیا۔ پھر اپنے سب سے بڑے حریف نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کر کے 15 برس تک پارلیمانی تسلسل کو بنیاد فراہم کی۔ وہ بالآخر جنرل مشرف کی آمریت اور دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں شہید کردی گئیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت پہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر آصف علی زرداری نے پاکستان کو بچایا تو لیکن پیپلزپارٹی کو عملیت پسندی کی راہ پہ ڈال کر۔ بھٹوز کے دردناک انجام سے سبق سیکھتے ہوئے آصف زرداری نے جمہوری ٹرانزیشن کو کمال ہوشیاری سے آگے بڑھایا۔ انکا سب سے بڑا کارنامہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ تھا۔ انہوں نے CPEC کی راہ ہموار کی، گوادر کی بندرگاہ کا انتظام چینیوں کے حوالے کیا اور ایران سے گیس پائپ لائن کے معاہدے کو عملی شکل دی۔ لیکن پھر میمو گیٹ کی صورت میں مقتدرہ سے انکا جھگڑاکھل کر سامنے آگیا اور پیپلزپارٹی کی جگہ تحریک انصاف کیلئے بنادی گئی۔ تحریک انصاف کی پنجاب میں مقبولیت خود آصف زرداری کی اس عقلمندی سے بھی بڑھی جب انہوں نے شریف مخالف سیاست کا میدان عمران خان کیلئے خالی چھوڑ دیا۔
گوکہ آصف زرداری اپنی زوجہ بے نظیر کے ساتھ بہت جذباتی طور پر جڑے رہے لیکن بی بی کی عوامی سیاست اور جمہوری آئیڈیلزم سے انہوں نے خرد کو غلامی سے آزاد کرنے کی بجائے بقا و مصالحت کی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بے نظیر کے تہذیبوں میں مصالحت کے عالمی نظریہ کو مقتدرہ اور حریف سیاسی قوتوں سے مصالحت کیلئے استعمال کیا۔ اگر بی بی شہید کو یہ تاریخی شعور تھا کہ دنیا میں سوشلزم کی لہر ماند پڑگئی ہے اور سرد جنگ ختم ہونے کو ہے اور انہوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ترویج کی تو آصف علی زرداری نے بھٹوز کے انجام اور بی بی کی شہادت سے نہایت مختلف نتیجہ اخذ کیا اور مصالحت کی غیر عوامی سیاست سے اقتدار میں حصہ دار تو بنے لیکن پیپلزپارٹی کی عوامی حمایت گنوا کر۔ اب جب بلاول بھٹو پختہ سیاستدان بن چکے ہیں اور انہوں نے ایک کامیاب وزیر خارجہ کے طو رپر اپنے آپکو منوالیا اور گزشتہ اسمبلی میں بطور ذہین اپوزیشن رہنما اپنی ساکھ بھی بنا چکے تو اب وہ اپنی راہ خود طے کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً پاکستان کے موجودہ سیاستدانوں میں بلاول سب سے جمہوری، لبرل اور پڑھے لکھے نوجوان سیاستدان ہیں جو کبھی کبھار سوشل ڈیموکریسی کی جانب رجحان کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے جیالوں اور عوام کے دلوں میں بھٹو کی یادوں کو وہی گرماسکتے ہیں۔ لیکن میں حیران ہوں کہ جب بھی بلاول کوئی پاپولر عوامی بیانیہ دیتے ہیں، تو پدرانہ شفقت سے مجبور آصف زرداری اپنی اولاد نرینہ کی سلامتی کیلئے پریشان ہوکر اس عوامی بیانیہ کی ہوا نکال دیتے ہیں۔ 35 سالہ بلاول بھٹو نہ تو اب بچے رہے ہیں اور نہ اپنے والد کی غیر نظریاتی عملیت پسندی سے متاثر ہیں۔ وہ سیاست میں اپنا مقام خود پیدا کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ انکی والدہ نے اپنا رستہ خود بنایا تھا۔ یقیناً اپنے بیٹے کی سلامتی کیلئے زرداری صاحب کی فکر مندی جائز ہے اور وہ سیاسی جوڑ توڑ سے اگلے بندوبست میں اپنی کوئی جگہ بنانے کی فکر میں ہیں اور اسکی پروا کیے بغیر کہ پیپلزپارٹی بھی ن لیگ کی طرح کنگز پارٹی بننے کی دوڑ میں کود جائے۔ اسوقت ملک میں تحریک انصاف کیخلاف جو مہم جاری ہے اور عمران کو سیاست سے باہر کر کے ہائبرڈ نظام دوم کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے، اس میں ن لیگ سب سے آگے نکل گئی ہے تو کیا پیپلزپارٹی بھی موقع پرستی کی اس بھیڑ چال کی نذر ہو جائے۔ میرے خیال میں تو سب بابوں کو نئی نسل کیلئے راستہ چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ انکی پٹی ہوئی پذیرائی کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ میاں نواز شریف کو بھی اپنے سے زیادہ پاپولر مریم نواز کیلئے راستہ چھوڑنا چاہیے اور آصف زرداری کو بلاول بھٹو کی آزادانہ جمہوری سیاست کو آگے بڑھنے دینا چاہیے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین ایک مجبوری تھی، اور ٹرپل پی پی پی کو اپنے عوامی منشور کے ساتھ تلوار کے نشان پر سامنے آنا چاہیے۔ کوئی تو جمہوری اور عوام دوست ایجنڈے کا پاسبان بنے۔ زمانہ بدل گیا ہے، نئی نوجوان نسل سامنے آگئی ہے اور وقت ہے کہ’ جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔‘