یادش بخیر۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے ماہسا امینی نام کی ایرانی لڑکی پولیس کی تحویل میں ماری گئی تھی ، اُسے ایران کی نام نہاد اخلاقی فورس نے حجاب نہ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔ اُس کی موت کے بعد مغربی ممالک کے دانشوروں اور جامعات میں پڑھانے والے پروفیسروں نے بھی ایرانی عورتوں کے حق میں رو رو کر نوحے پڑھے تھے ۔اللہ کی شان دیکھیں، اِن مغربی ممالک کےوہی دانشور ہیں اور وہی جامعات،مگرآج جب غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری ہے تو انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔پہلے جو دانشور ایرانی عورتوں کیلئے رو رو کر ہلکان ہورہے تھےاب وہی پروفیسر چھ ہزار بچوں کی موت کو اسرائیل کے ‘حق دفاع‘ کے کھاتے میں ڈال کر اطمینان سے بیٹھے ہیں اور انتظار کررہے ہیں کہ آج سےبیس سال بعد جب لاس ویگاس میں کوئی کانفرنس ہوگی تو وہاں’حماس کے دہشت گردوں کے جسم پر بنے ٹیٹوؤں اور فلسطینی بچوں کے چہروںمیں پوشیدہ مماثلت‘ کے موضوع پرکوئی پُر مغز قسم کا مقالہ پڑھ کر داد سمیٹ لیں گے ۔
اِس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔فرض کریں کہ نیویارک یونیورسٹی میں لاطینی زبان کا ایک پروفیسر ہے جس کا عالمی یا مقامی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ۔امریکہ عراق پر حملہ کرے یا اسرائیل غزہ پر، اُس کا کوئی موقف نہیں۔ایسے پروفیسر کی زندگی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مسئلہ تب ہوگا جب یہی پروفیسر دعویٰ کرے گا کہ وہ دنیا میں ہونیوالے ظلم و استبداد کے خلاف ہے اور وہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہو کرنظریاتی جدو جہد کر رہا ہے،اِس جدو جہد میں وہ کبھی ایرانی عورتوں کی حمایت میں اپنے بالوں کی لَٹ کاٹ لے گا اور کبھی پاکستان کی افغان پالیسی کیخلاف اقوام متحدہ میں یاد داشت جمع کروا دے گا۔ایسی صورت پھر اِس پروفیسر کے پاس یہ آپشن نہیں ہوگا کہ جب غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے چھ ہزار بچے ہلاک ہوجائیں تو وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جائے یا ایسی قراردار کاحصہ بن جائے جس میں فقط حماس کی دہشت گردی کا ذکر ہو ۔اسے سہل سیاست کہتے ہیں یعنی ناداں سجدے میں گرجاتے ہیں جب وقت ِقیام آتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ امریکہ اور یورپ کی جامعات نے غزہ کے معاملے پر بالکل چُپ سادھی ہوئی ہے ،کئی جامعات میں غزہ کے حق میں احتجاج ہوئے ہیں مگر یہ زیادہ تر انقلابی سوچ رکھنے والے طلبا نے کیے ہیں،انتظامیہ اور پروفیسر مکمل طور پر وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے ہیں اوریہی بے ضمیری ہے ۔
ہم لکھاریوں کا حال بھی اِن مغربی پروفیسروں سے مختلف نہیں ،ہم انتہا کی مرعوبیت کا شکار ہوچکے ہیں، جب بھی کسی مغربی ملک کی سیر کو جاتے ہیں تو واپسی پر وہاں کے صدر سے لے کر چپڑاسی تک کے یوں قصیدےلکھتے ہیں جیسے وہاں سب کے سب متقی اور پرہیز گار ہیں، انسانی حقوق کے چمپئن ہیں اور انصاف کے علمبردار ہیں۔سویٹزر لینڈ سے لے کر جرمنی تک ،یورپی ممالک کی اکثریت بے شرمی اور ڈھٹائی سے غزہ میں بچوں کا قتل عام دیکھ رہی ہے مگر اسرائیل کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہے۔ہاں یہ ضرور ہےکہ اِن ممالک میں صفائی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے،کوئی گاڑی غلط پارک کرنے کی جرات نہیں کرتا، لوگ ایک دوسرے کو سارا دن مسکرا مسکرا کردیکھتے ہیں،نیدر لینڈ کا وزیر اعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے، انجلا مرکل کے پاس تین کپڑوں کے جوڑے ہیں، برطانوی وزیر اعظم اپنا کام خودکرتا ہے اور ٹونی بلئیر بسوں میں دھکے کھاتا ہے۔یہ باتیں سُن سُن کر ہمارے تو کان پک گئے تھے، اوپر سے مغربی فلسفہ ،تاریخ ، جمہوری روایات اور اخلاقیات نے ہمیں ایسا مرعوب کر رکھا تھا کہ لگتا تھا کہ یہ لوگ شاید واقعی ہم سے برتر ہیں۔ لیکن خدا کی شان دیکھیں، اپنی آنکھوں کے سامنے ہم یہ بت پاش پاش ہوتے دیکھ رہے ہیں۔انجلا مرکل اپنے پورے دور حکومت میں بے شرمی سے اسرائیل کے ساتھ کھڑی رہی ،یہی حال موجودہ جرمن چانسلر کا ہے،حال ہی میں نیدر لینڈ میں جس شخص نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے وہ علانیہ مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور ٹونی بلیئر تو خیر ثابت شدہ جنگی مجرم ہے ۔اسی طرح چند دن پہلے امریکی صدر اوبامہ کے ایک سابق مشیر کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ ببانگ دہل ایک مسلمان دکاندار کو کہہ رہا ہے کہ فلسطین میں مرنے والے ہزاروں بچے کافی نہیں ۔گر یہ بات کسی باریش مسلمان عہدے دار نے امریکہ یا اسرائیلیوں کے بارے میں کی ہوتی تواُس صورت میں شایداب تک اُس کے ملک پر حملے کی قراردار منظور کی جا چکی ہوتی ۔
میں قطعاً یہ نہیں چاہتا کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے مغرب پر تنقید کرکے خود کوتسلی دیتے رہیں، اتنی سمجھ بوجھ تو اِس خاکسار میں ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ ہر مسئلے پر ہم خود پر ہی لعنت ملامت شروع کردیا کریں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ مسئلے کی اصل جڑ کہاں ہے۔چندسال پہلے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکرنے بہت پتے کی بات کی تھی ،ہے تو ہمارا دشمن مگر کام کی بات کوئی بھی کرےتو دہرانے میں حرج نہیں ۔ جے شنکر نے کہا تھا کہ ’یورپ کو اس ذہنیت سے باہرنکلنا ہوگا کہ یورپ کے مسائل تودنیا کے مسائل ہیں لیکن دنیا کے مسائل یورپ کے مسائل نہیں ہیں۔‘مغربی دنیا کایہی وہ مائنڈ سیٹ ہےجو اصل مسئلہ ہے، یوکرائن کے معاملے پر امریکہ اور یورپ چاہتا ہے کہ وہاں روسی جارحیت کے خلاف سب متحد ہوجائیں ،یہ بات کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے نمائندے کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں مگر غزہ کے بچوں کا ذکر آتا ہے تو وہی نمائندہ سپاٹ چہرے کے ساتھ جواب دیتا ہے کہ اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں۔ تو چلیے صاحب اگر اخلاقیات کا یہی پیمانہ ہے تو آئندہ کوئی مسلمانوں کو یہ طعنہ نہ دے کہ ہم جہادی اور انتہا پسند ہیں ،دنیا میں اِس وقت اگر کوئی اصل جہادی اور انتہا پسند ہے تو وہ دیدہ زیب سوٹوںاور نفیس ٹائیوں میں ملبوس مغربی دانشگاہوں میں براجمان پروفیسرہیں ، باریش مسلمان نہیں!