سر رہ گزر

خدا کرے کہ الیکشن شفاف ہوں

8فروری 2024 مبارک دن ہوگا کہ مشکلات سے دوچار عوام کو شاید کوئی ایسا رہنما مل جائے جو ان کو خوشحالی سے نواز دے۔ بات نیت کی ہے اگر یہ صاف تو الیکشن بھی شفاف ہو۔ آج ہر لیڈر لیلائے اقتدار سے جپھی ڈالنے کو بے قرار ہے، اب اس کھیپ میں تو نہیں کہا جاسکتا کہ کون صاف نیت رکھتا ہے اور یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں ابن فلاں کے ارادے بہترین اور اپنی بہتر کارکردگی کا یقین ہے، انتخابات ہمارے ہاں 76 برس سے ہورہے ہیں مگر بقول غالب ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘۔بہر حال انتخابات جب ہوئے مزاحیہ شاعری بھی ثابت نہ ہوئے کہ مزاحیہ شاعری بھی ہنسا تو دیتی ہے، ہم عوام ہر بار ووٹ دے کر بعد میں یہ کہتے ہیں؎ رلائے کیا سپنا میرا، ہم بھی بھونرے کی طرح ناداں ہیں، کہ انتخابات کے گل دستے سے کانٹے چنتے ہیں، ہم نے ان دنوں عوام میں چل پھر کر دیکھا کہ وہ کنفیوژ ہیں، شاید انہیں گلدستے کا کوئی پھول پسند نہیں آیا، ہمارے سیاسی نظام نے گویا ہمیں کسی نہ کسی کو ووٹ دینے پر مجبور کردیا ہے، یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید ہر لیڈر ہی اتنا قابل اور سچا ہے کہ ہم کسی کو واضح اکثریت نہیں دیتے ، اور اس مشہور زمانہ سولہ ماہی حکومت کی طرح پھر پیوندوں سے بھری حکومت اپنے سر پر بٹھا کر کہتے ہیں ہم پر جس قیمت پر چاہو حکومت کرلو مگر کب یہ نوبت آتی ہے ’بس ایک سرمایہ ووٹ رکھتے سو لٹا آتے ہیں‘ اور پھر سے 5سال اسی طرح گزارتے ہیں جیسے ہم دکانِ انتخابات سے گزرے ہی نہیںتھے، ویسے ہمارے انتخابی سٹاک میں اتنے زیادہ لعل و جواہر ہیں کہ ایک سے ایک بڑھ کر چمکیلا، دنیا بھر میں دو پارٹیاں معرکہ انتخابات میں اترتی ہیں اور بڑی آسانی سے کوئی ایک اقتدار لے کر خدمت شروع کردیتی ہے، اب اس بار جو میلہ سجنے جا رہا ہے اس میں لیلائے اقتدار ایک اور بیسیوں اس کے طلب گار ، یاتو کوئی بھی معیار پر نہیں اترے گا اور یوں اجتماعی نکاح ہوگا، پھر وہی ہوگا جو ہوتا آ رہا ہے۔

٭٭٭٭

تصوف سے مت کھیلیں

نہ جانے کس نے تصوف کا غلط تصور بعض لوگوں کے ذہن میں اتارا کہ آج بہت سے مغربی تہذیب کے گورکھ دھندے میں پھنسے افراد کو تصوف پر طبع آزمائی کا شوق، مختلف بابوں، جبہ پہنے پیروں اور وقت کی نبض سے مربوط علما کے پنجروں تک لے جاتا ہے۔ یہ فتنہ ہماری پاک سرزمین میں بھی پھیل گیا ہے، ہم نے بہت غور کیا کہ یہ انجانے راستے کیوں ہمارے ہم وطنوں کو اتنے بھاگئے کہ کسی کی سنتے ہی نہیں، دراصل ہماری تعلیم میں تکمیل نہیں اگر کسی مرحلے پر تعلیم وتربیت میں تصوف کی حقیقت بتائی گئی ہوتی تو یہ تصوف کے نام پر تصوف سے کھلواڑ نہ ہوتا، تصوف دین کا علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل کرنے کا نام ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ صوفی وہ عالم دین ہے جو عالم باعمل ہے اور بے عمل عالم صوفی نہیں ہوتا، یہ سادہ سی بات ہم نے پیش کردی جسے سمجھ لینے سے کوئی تصوف کا شوقین، لفظی تصوف کے دھوکے میں نہیں آئے گا۔ ہر باعمل نیک مسلمان صوفی ہوتا ہے، تصوف کو اسلام سے ایک وجود دینا گمراہی ہے، کوئی ایکٹرس گلے میں لمبی سی تسبیح ڈال کر خود کو صوفی سمجھ بیٹھے تو کیا یہ درست ہوگا، بعض حضرات نے بغیر کسی تحقیق تصوف کو عجمی فتنہ قرار دے دیا یہ بہت بڑا جہل ہے، اصحاب صفہ تصوف پر ہی کاربند تھے، اسی لئے ہم مانتے ہیں کہ تصوف کا مادہ صفا ہے اورصفا اندر باہر کی پاکیزگی ہے۔ جن افراد نےاسلام کی تعلیمات پر عمل کیا وہ صاحب مقام ہوگئے، صوفی جب لا کہتا ہے تو وہ اپنی ذات کی نفی کرتا ہے،گویا حقیقی وجود صرف اللہ ہے جو قابل فنا نہیں باقی اس کی جملہ مخلوقات فانی ہیں۔ تصوف علم دین کے حصول کے بعد اس پر مکمل عمل کرنا ہے تصوف جبہ پہننے اور الٹی سیدھی حرکات کا نام نہیں۔

٭٭٭٭

فکری اسموگ

یہ اسموگ تو جب سے میں نے آنکھ کھولی ہے ہر طرف اسموگ ہی اسموگ ہوتا تھا، یہ اب رب بھلاکرے ہمارے حکمرانوںکا کہ انہوں نے آخر ہمیں اسموگ کا بتا ہی دیا ، ورنہ ہم من حیث القوم اسموگ کو دھند ،کہر اور بادل سمجھ کر دائمی قسم کے بخار، نزلہ، زکام اور دیگر کئی بیماریوں کو جاڑوں کی سوغات سمجھتے تھے یہ تو اب پتہ چلا کہ اسموگ ایک ایسی فضائی آلودگی کو کہتے ہیںجو زندگی کا دورانیہ کم کرنے کا سبب بنتاہے، غلاظت اور صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا ہی ہماری پسندیدہ آلودگی تھی، میں لکھ رہا تھا کہ کسی نے بتایا کہ اہل محلہ میں کسی دیوانۂ اسموگ نے کچرے کے ہمالہ میں آگ لگا دی ہے اور خودساختہ اسموگ تیار کرلی ہے اپنی طرف سے اس نے ہماری صحت کو برقرار رکھنے کا بندوبست کیا مگر درپردہ ایسی دشمنی اس سے سرزد ہوگئی ، ہم نے اس سے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کیا تو فرمایا یہ سب اہتمام محلے بھر کے کوڑے کو جلا کر اس لئے کیا کہ کم از کم اپنے محلے کو تو آلودگی سے پاک کردوں، اب ہم کیا کہتے،صرف اتنی گزارش کی حضور کوڑا جلانے سے ہی تو اسموگ جنم لیتا ہے اور پھر جانیں لے لیتا ہے، اسموگ میں تو پھیپھڑے کام نہیں کرتے، دوائیاں کیا اثر کریں گی۔ کہا جاتا ہے کہ کسانوں کا قصور ہے ، فصل کی باقیات کٹائی کے بعد جلا دیتے ہیں، مگر ایسا توہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، سموک کوتو جانتے تھے مگر اس کی اولاد اسموگ کو نہیں جانتے تھے یہ دھواں چھوڑ لاہور کی گاڑیاں ہر وقت سڑکوں پر دوڑتی رہتی ہیں کیا یہ کم ہیں اسموگ کو ہم پر مسلط کرنے کو۔ بہرصورت حکومت کے ساتھ اسموگ کو ختم کرنےمیں ہم باقاعدہ باجماعت شامل ہوں تو ہمارے اندر کا فکری اسموگ ختم ہو سکتا ہے۔

٭٭٭٭

نئیں ریساں ن لیگ دیاں

O…احسن اقبال: ہماری پارٹی میںسینئر جونیئر کا حسین امتراج ہے، ابھی تو احسن اقبال صاحب اس وقت کے ریمارکس تیار کریں جب ہر قسم کے جونیئر سینئر آپ کےپارٹی وجود میں داخل ہوں گے اور یہ عالم ہوگا کہ آپ کے لیڈر کے حضور سبھی پارٹی کے ارکان اس مقام کو پا لیں گے کہ :تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

O…وزیر اعلیٰ پنجاب اگرچہ پنجاب اسپیڈ بننے کیلئےخاصی محنت کر رہے ہیں،تاہم ؎ پر نہ ہو تیرا مقام نصیب ۔

ہم تو انہیں پنجاب کا بیٹا سمجھتے ہیں کیونکہ کیئر ٹیکر ہوتےہوئے وہ کارکردگی کے اعتبار سے مستقل وزیر اعلیٰ لگتے ہیں، جہاں درد ہوتا ہے وہ درماں بن کر پہنچتے ہیں ایسے تین چار اور ہوں تو ملک کی تقدیر اور شہرت دونوں بدل جائیں۔

٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں