الحمد للہ میں نے صرف تین بار امتحان دینے کے بعد ایم اے اردو کرلیا تھا ، پچیس سال کالج میں اردو پڑھائی، پچاس سال سے اردو ہی میں شاعری اور نثر نگاری کر رہا ہوں، پٹھانوں اور باقی قومیتوں کے افراد سے اردوہی میں بات کرتا ہوں، مگر پنجابیوں سے پنجابی میں بات کرنے کا مزا آتا ہے۔ مگر اس وقت میرے منہ کا مزا خراب ہو جاتا ہے جب کوئی پنجابی مجھ سے اردو میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے ’’جٹکے‘‘ انداز سے مجھے جھٹکا سا لگتا ہے، ان لمحوں میں اسے درخواست کرتا ہوں کہ بھائی مجھ سے اردو میں بات نہ کرو، میں ان پڑھ آدمی ہوں مجھے اردو نہیں آتی، اس پر وہ چند جملے پنجابی میں ادا کرکے دوبارہ اپنی ذاتی اردو میں بات کرنے لگ جاتا ہے۔ایک دفعہ ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے، مگر جب انہوں نے لاہور کو ’’لور‘‘ اور اسی طرح بہت سے دوسرے لفظوں کی بے تحاشا بے حرمتی شروع کی اور اردو کو پنجابی میں ڈھالنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے تو میںنے ان سے عرض کی کہ جناب میرے ایم اے اردو ہونے کی لاج رکھ لیں کہ میں اگر آپ کی پیروی میں آپ جیسی اردو بولنے لگا تو میں اور اردو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے پنجابی میں گفتگو آغاز کیا مگر تین چار جملوں کے بعد ہانپنے لگ گئے۔
میرے یہ دوست دراصل اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اردو بولنے سے ان کاشمار بھی معزز لوگوں میں ہو گا، مگر کواّ چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا ۔ اب آپ سے کیا پردہ مجھے بھی جب معزز لوگوں میں شمار ہونے کی خواہش زور پکڑتی ہے تو میں اردو یا پنجابی میں نہیں انگریزی میں گفتگو کا آغاز کرتا ہوں اور میری انگریزی بھی ان دوستوں کی ’’اردو‘‘ جیسی ہو جاتی ہے جس پر میرا مخاطب مجھ سے درخواست کرتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان میں بات کریںمیں سمجھ جائوں گا مگر خدا کیلئے انگریزی میں بات نہ کریں کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ آپ کون سی زبان میں بات کر رہے ہیں، جس پر مجھے اتنا غصہ آتا ہے کہ میں اسے پنجابی میں گالیاں دینا شروع کردیتا ہوں جس پر وہ الٹا خوش ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اب تمہاری بات سمجھ آنے لگی ہے۔ انگریزی کی جان چھوڑو اور پنجابی ہی میں بات کرو، مگر ہم لوگ بھی کیا کریں کہ اردو تحریک کی بانی ہماری بہن فاطمہ قمر ہمیں یہی بتاتی رہتی ہیں کہ دفتری زبان اور ہماری ذاتی زبان بھی اردوہی ہونی چاہیے، اب ہم جائیں توجائیں کہاں؟۔
ایک اور بات جب سندھی، بلوچی، پٹھان ہماری قومی اور رابطے کی زبان اردو میں بات کرتے ہیں تو ان کا لہجہ اچھا لگتا ہے اس سے اردو کی بے حرمتی بھی نہیں ہوتی ساری بات سمجھ میں تو آجاتی ہے ،میری اپنی بھی حالت ایسی بلکہ ایسی ویسی ہے کہ میں ان دنوں شکیل عادل زادہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کروں وہ میری اردو کو راہ راست پرلے آئیں گے اور یوں میرا شمار بھی معزز لوگوں میں ہونے لگے گا اس کیلئے مجھے کراچی جانا پڑے گا اور میری اردو سن کر شکیل عادل زادہ جہاں جانا چاہیں چلے جائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا ،تاہم میں انہیں جانے نہیں دوں گا، ان کی ساری اردو نچوڑ کر واپس لاہور آجائوںگا اور یہاں اپنے ان پنجابی دوستوں کو جو معزز لوگوں میں شمار ہونا چاہتے ہیں اردو کی ٹیوشن پڑھائوں گا ،فیس بس واجبی سی ہو گی بس اتنی ہی جتنی ہم اپنے بچوںکے انگلش میڈیم اسکولوں میں ادا کرتے ہیں، اور ہاں یہ روپوں میں نہیں ڈالروں میں ہوگی اس وقت تک میں اپنے ان پنجابی دوستوںسے، جو سمجھتے ہیں کہ ان کی اردو مولوی عبدالحق سے بھی بہتر ہے ،صرف یہ گزارش کروں گا کہ پلیز اردو نہ بولا کریں کیونکہ زبان بے زبان نہیں ہوتی اسے سب سمجھ آتا ہے اور یوں وہ سب حساب چکا دیگی جو ظلم آپ اس پر کرتے چلے آ رہے ہیں۔
آخر میں قمر ریاض کی تازہ غزل:
زمین کھود کے اس میں اتار دو گے مجھے
گئے دنوں کی طرح تم گزار دو گے مجھے
تم ایک بار تو مصلوب کر چکے ہو دوست
میں بچ گیا ہوں تو کیا پھر سے مار دو گے مجھے
تمہاری بدلی نگاہوں سے ایسا لگتا ہے
تم اپنے دل سے کسی دن اتار دو گے مجھے
میں جس جگہ بھی کہیں لڑکھڑا کے گرنے لگا
مجھے یقین ہے بڑھ کر سہار دو گے مجھے
میں اس لئے بھی قمرؔ تم سے ہچکچاتا ہوں
تمہارے ہاتھ لگا میں تو ہار دو گے مجھے