خیمہ اور اونٹ

”یہ بڑی غلط پالیسی ہے۔ غلط وقت پر ہے۔غلط انداز میں ہے۔ ان افغان مہاجرین کو پاکستانی تصور کیاجانا چاہیے۔جو افغان یہاں پیدا ہوئے ہیں انہیں سٹیزن شپ دینی چاہیے۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں انہیں سٹیزن شپ دینی چاہیے۔ جن کے پاس کوئی سکل ہے‘ کوئی ڈاکٹر ہے‘ کوئی انجینئر ہے اُسے بھی پرییارٹی پر پاکستان کی سٹیزن شپ دیں۔ پاکستان کو اپنی ویزا پالیسی کو بہتر کرنا چاہیے۔ جو افغان یہاں انویسٹ منٹ کر سکتے ہیں‘ انویسٹ منٹ کی رقم متعین کر دیں‘ چار لاکھ ڈالر‘ پانچ لاکھ ڈالر تو اُن کو فیملی سمیت ویزا دیں۔اُن کو اس سسٹم میں انٹی گریٹ کریں اور پاکستان کی پاور بنائیں۔اگر آپ کو اپنی نیشنل سکیورٹی کے بارے میں زیادہ پریشانی ہے تو ان سے افغانستان کی جو سٹیزن شپ ہے اس کی Renounce کروالیں یا کوئی پیپر سائن کروالیں۔پھر جو دوسری آرگومنٹ دی جاتی ہے کہ چودہ یا پندرہ دہشت گرد سال یا دو سال یا چھ مہینے میں خود کْش حملہ آور جو افغان تھے یہ زیادہ تر وہ افغان تھے جو سرحد پار سے آئے ہیں۔ یہاں رہنے والے جو افغان ہیں وہ عام طور پر کسی قسم کی برائی میں یا قانون کی وائلیشن میں ملوث نہیں ہوتے۔غریب لوگ ہیں۔ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔وہ افورڈ بھی نہیں کر سکتے۔کچھ Criminal element ہوتے ہیں ان کے خلاف آپ کارروائی کیجیے لیکن ان کو جب آپ ڈاکومنٹ میں لے آئیں گے تو بڑا بہتر ہو جائے گا۔جو لیبر کلاس ہے افغان مہاجرین کی ان کے لیے آپ کوئی ٹائم فریم طے کر دیں کہ پانچ سال کے اندر وہ اتنا ٹیکس جمع کراتے ہیں تو ان کو پاکستان کی سٹیزن شپ دیجیے۔ جو افغان بھائی ہیں‘ افغان بہنیں ہیں‘ انہیں گلے سے لگانے کی ضرورت ہے۔اس لیے کہ چار دفعہ افغانستان کی زمین تہہ تیغ ہوئی‘ اور چاروں دفعہ پاکستان کا رول تھا۔اور ہمارا رول تھا۔ پہلی دفعہ سوویت یونین کے خلاف جنگ ہوئی پاکستان کا رول یہ تھا کہ ہم نے پیسے لیے اور جنگ افغانستان کے اندر لڑی۔ بہت سارے افغان مہاجرین یہاں پر آئے۔ نمبر دو جب سوویت یونین یہاں سے چلا گیا تو نائن ٹیز کی ابتدا میں‘ 95‘96میں طالبان نے عروج پکڑا تو طالبان کے عروج پکڑنے میں پاکستان نے بھی اُس وقت سپورٹ کی۔ پاکستان نے طالبان کی سپورٹ کی تھی۔یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔پاکستانی بھی مانتے ہیں۔ساری دنیا بھی مانتی ہے۔ اس وقت جب طالبان گورنمنٹ آئی تھی‘ بہت سارے لوگ پاکستان میں آگئے تھے۔ دوسری دفعہ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔کیونکہ طالبان کا جو سخت سسٹم تھا اس پر لوگ ناراض تھے۔عورتوں پر‘ بچیوں پر تعلیم کی پابندی تھی‘ بدھا کے مجسمے توڑ دیے گئے تھے۔امن ضرور لائے تھے۔ پوست کی کاشت بند کر دی تھی‘لیکن لوگوں کے چہروں سے خوشی ختم ہو گئی تھی۔یہ دو واقعات ہو گئے۔ پھر تیسرا واقعہ نائن الیون کا ہوا۔ نائن الیون جب ہو گیا تو اس کے بعدامریکہ ایک دفعہ پھر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ تو ایک دفعہ پھر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور پھر وہاں سے لوگوں کو نکلنا پڑا۔ اور چوتھی دفعہ یہ ہوئی کہ جب دوحہ پیس پروسیس ہوا تو پاکستان نے پہلے خفیہ طور پر اور بعد میں سرعام طالبان کی حمایت کی۔ اور سوچا کہ ہم اشرف غنی کی حکومت کو ہٹا دیں گے کہ وہ مخالف ہے اور پرو انڈیا ہے۔تو پھر چوتھی دفعہ ہم نے افغان بھائیوں کے ساتھ‘ میں یہ کہوں گا کہ ہمارا بھی رول تھا۔افغان طالبان وہاں پر آگئے اب ہمارے ساتھ ان کے تعلقات ٹھیک نہیں۔ ٹیررازم پہلے کی نسبت زیادہ ہو رہا ہے۔ اشرف غنی کے دور میں ٹیررازم اتنا نہیں تھا جتنا اب ہورہا ہے۔ تو اب اس کے جواب میں ہم نے افغان طالبان سے نمٹنے کے لیے جو افغان یہاں پر موجود ہیں جو ہمارا بازو ہو سکتے ہیں‘ جو ہماری طاقت ہو سکتے ہیں‘ ہم ان کو دھکا دے رہے ہیں اور وہ لوگ پریشان ہیں کیونکہ وہ یہاں پر چار جنریشن‘ چار نسلیں پیدا ہو چکی ہیں‘ جو یہاں کی زبان جانتے ہیں‘ یہاں کا کلچر جانتے ہیں۔ ہم نے انہیں قبول نہیں کیا‘ ہم نے انہیں عزت نہیں دی کہ انہیں یہاں سٹیزن شپ دے دیتے یا ان کو قبول کرتے۔ وہ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے رہے۔کیوں ہم نے ایسا کیا؟ ہماری غلطیاں تھیں۔ اور ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے بجائے کہ ہم اپنی امیگریشن پالیسی ٹھیک کریں‘ ویزا پالیسی ٹھیک کریں‘ اب ہم ایک اور بڑی غلطی کر رہے ہیں کہ یہ جو موجود ہیں‘ ان کو بھی اپنے خلاف کر رہے ہیں۔یہ وطن جو ہے ان لوگوں کا بھی ہے جو یہاں پر پیدا ہوئے ہیں۔ بے شک ان کے ماں باپ افغان تھے۔ ان افغانوں نے جو یہاں پر تیس سال‘ بیس سال‘ پندرہ سال گزار دیے یہ وطن اب ان کا بھی ہے۔باہر ہم جاتے ہیں تو پانچ سال بعد سٹیزن شپ مانگتے ہیں‘ ان کو بھی دے دیں‘ کھلے دل کا مظاہرہ کریں‘‘
یہ طویل پالیسی بیان افغان کابینہ کا ہے نہ افغانی سفیر کا ! یہ معروف صحافی اعزاز سید صاحب کا ہے۔ اعزاز صاحب کا رپورٹنگ میں بڑا نام ہے۔ وہ ایک وی لاگ بھی کرتے ہیں۔ اس میں عمر چیمہ بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عمر چیمہ بھی رپورٹنگ کے میدان میں معتبر مقام رکھتے ہیں بلکہ مشکل مقامات سے بھی گزرے ہیں۔ عام طور پر یہ دونوں ثقہ حضرات نئی خبروں تک محدود رہتے ہیں مگر چند روز پہلے‘ جس دن عمر چیمہ موجود نہیں تھے‘ اعزاز صاحب نے افغان مہاجرین کے حوالے سے یہ طویل تقریر کی۔ ہم ان کے خیالات کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں اپنی رائے دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہی حق استعمال کرتے ہوئے کچھ گزارشات ہم بھی پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں!
اعزاز صاحب کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو افغان یہاں پیدا ہوئے ہیں انہیں شہریت ملنی چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ خاص وقت یہاں گزار چکے ہیں۔جیسے پانچ سال کا عرصہ‘ جو کچھ دوسرے ملکوں میں رائج ہے‘ انہیں بھی شہریت دینی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں جو آئے ہیں انہیں بھی اور جو یہاں پیدا ہوئے انہیں بھی‘ شہریت ملنی چاہیے۔ اس ضمن میں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ امریکہ میں جو بھی پیدا ہو‘ اسے شہریت مل جاتی ہے۔ برطانیہ میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کی پالیسی یہ نہیں ہے کہ جو بھی یہاں پیدا ہو‘ اسے شہریت مل جائے۔ کوئی بھی ملک کسی ایک قومیت کے لیے پالیسی نہیں بدلتا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان صرف افغانوں کے لیے پالیسی کیوں بدلے؟دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر ایک بار آپ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دیں گے تو یاد رکھیے یہ سلسلہ لا متناہی ہے۔ یہ مہاجر غزنوی عہد سے آرہے ہیں۔ مسعود سعد سلمان سے لے کر قطب الدین ایبک اور ناصر الدین قباچہ تک سب انہی علاقوں سے آئے تھے جو آج افغانستان کہلاتے ہیں۔ اُس وقت یہاں کی ” شہریت‘‘انہوں نے بزورِ شمشیر حاصل کی تھی۔ افغانستان میں صرف ایک انڈسٹری کام کرتی ہے اور وہ جنگ ہے اور قتل و غارت۔ جب بھی وہاں حکومت بدلتی ہے اور جب بھی کوئی نام نہاد انقلاب آتا ہے‘ مہاجرین کا ایک نیا ریلا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ افغانستان میں کسی حکومت کو ماضی میں کوئی قرار تھا نہ آئندہ ہو گا۔ اعزاز صاحب ہم سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ انہوں نے رابرٹ نکولس (Robert Nichols)کی مشہور زمانہ کتاب ” اے ہسٹری آف پشتون مائیگریشن‘‘ ضرور پڑھی ہو گی۔مہاجرین کے ریلے آتے رہیں گے۔ ہمیشہ آتے رہیں گے۔ طالبان حکومت کی سخت گیر پالیسیوں سے جو اضطراب سینوں میں پل رہا ہے‘ اس کا نتیجہ کسی بھی وقت‘ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ تو پھر کیا مہاجرین کے ہر نئے ریلے کو آپ پاکستانی شہریت پیش کرتے رہیں گے ؟ ( جاری )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں