امریکہ کے جنوبی اور وسطی ایشیا کیلئے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لُو پاکستان میں بہت مشہور ہیں ۔ جب تک عمران خان نےانہیں مبینہ غیرملکی سازش کے مرکزی کردار کے طور پر پیش نہیں کیا تھا،تب تک انہیں پاکستان میں کوئی نہیں جانتا تھالیکن اب ان کا نام زبان زدعام ہے۔چند روز قبل علیمہ خان نے عمران خان کا یہ پیغام سنا کرایک نئی بحث چھیڑ دی تھی کہ اگر انہیں پاکستان کی عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا توڈونلڈلُو کے خلاف امریکہ میں کیس کریں گے۔اس بحث سے جنم لینے والا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ امریکہ میں مقدمہ دائر کرنے سے پہلے امریکی عدالتوں کے ماضی میں دیئے گئے فیصلوں کو ماننا پڑے گا۔بہر حال اس ساری بیان بازی کے باعث ڈونلڈلُو کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اب ڈونلڈ کا لفظ سنتے ہی لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کے بجائے ڈونلڈ لُو کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔گزشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں امریکہ کے پاکستان میں سفیر نے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں تو میں نام دیکھ کر چونک گیا۔مجھے لگا شایدوہی’’غیر ملکی سازش‘‘والےڈونلڈلُو نوازشریف ،یوسف رضا گیلانی اور جہانگیر ترین سے ملنے کیلئے تشریف لائے ہیں مگر جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ امریکی سفیر کا نام ڈونلڈ لُو نہیں بلکہ ڈونلڈ بلوم ہے۔اس سے پہلے برطانوی ہائی کمشنر بھی میاں نوازشریف سے ملنے ان کی رہائشگاہ گئیں ۔انتخابات سے پہلے سیاسی رہنمائوں سے اس طرح کی ملاقاتیں معمول کی سفارتی سرگرمیوں کا حصہ ہوا کرتی ہیں مگر بیانیہ فروشوں نے اسے کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کی۔ابھی تبصروں اورتجزیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ امریکی مشن کی ترجمان جوناتھن لیلی کی پریس ریلیز نے حیران کردیا۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے سیاسی اداکاروں سے رابطہ مہم کے سلسلےمیں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی کی میزبانی میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوںسے ملاقات کی،لاہور میں وہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اوراستحکام پاکستان پارٹی کے بانی جہانگیر ترین سے ملے۔ان ملاقاتوں کے دوران آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد اور پاکستانی عوام کو اپنی مستقبل کی قیادت منتخب کرنے کا حق دینے کی اہمیت سے متعلق بات چیت ہوئی۔
امریکی سفارتخانے کے اس بیان میں پاکستان کی سیاسی قیادت کیلئے ’’پولیٹکل ایکٹرز‘‘کی اصطلاح استعمال کی گئی جسے آپ سیاسی اداکار یا فنکار کہہ سکتے ہیں۔سفارتکاری میں الفاظ کا چنائو نہایت احتیاط سے بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔چنانچہ یہ عذر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ’’پولیٹکل ایکٹرز‘‘ کی ترکیب غیر شعوری طور پر استعمال کی گئی ہوگی۔ویسے تو یہ اصطلاح بہت عام فہم ہے مگر جب میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ امریکی معاشرے میں اس سے کیا مراد لی جاتی ہے تو معلوم ہوا کہ جمہوری اور غیر جمہوری معاشروں میں اس کا مفہوم مختلف ہے۔ جب کسی غیر جمہوری یا نیم جمہوری ملک میں کسی کیلئے ’’پولیٹکل ایکٹرز‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ افراد جو سیاست طاقت یا اختیار تو رکھتے ہوں مگر منتخب نہ ہو ںیا پھر صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر نہ آئے ہوں ۔یا پھر یہ اصطلاح وہاں بروئے کار لائی جاتی ہے جہاں قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن کو آنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے یعنی موجودہ صورتحال کے حساب سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کو ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘دستیاب نہ ہو۔
نائجیریا کے شاعر اور ناول نگار بن اوکری نے کہا تھا،سیاست گر اور جادوگر میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں مثلاً دونوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ،اس پر لوگوں کی توجہ مرکوز نہ ہو۔ بلاشبہ ہمارے ہاں کامیاب سیاستدان وہی ہے جو ایک اچھا مداری اور کرتب باز بھی ہو۔امریکی مصنف اور شاعر،کارل سینڈ برگ کے بقول ایک سیاستدان کے پاس تین ہیٹ ہونے چاہئیں،ایک اچھالنے کیلئے،ایک وقت گزاری کیلئے اور ایک منتخب ہوجانے کی صورت میں خرگوش نکالنے کیلئے۔ ہمارے ہاں سیاست تنی ہوئی رسی پر چلنے کانام ہے یا یوں سمجھیں کہ بیک وقت کئی گیندیں اچھالنے اور انہیں گرنے نہ دینے کا دوسرا نام ہے۔آپ اسے سانپ اور سیڑھی کا وہ کھیل بھی کہہ سکتے ہیں جس میں آپ کتنے ہی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیوں نہ کر رہے ہوں مگر سانپ سے ڈسے جانے کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے۔سویلین حکومت کی مثال اس بہو کی سی ہے جسے بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے،اسے اپنے شوہر یعنی عوام کو بھی راضی رکھنا ہے،اسٹیبلشمنٹ نامی نخریلی ساس سے بچنا ہے، عدلیہ نامی سسر کے ہتھوڑے سے بھی خود کو محفوظ رکھنا ہے،اپنے بچوں یعنی پارٹی ورکرز کی فلاح و بہبود کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے،اپوزیشن کی صورت میں لاتعدادجیٹھ اور دیور جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ان کی سازشوں سے بھی بچنا ہے،شریکوں کے حسد اور ہمسایوں کی کڑوی کسیلی باتوں کا توڑ بھی کرنا ہے اور میڈیا نامی پھپھے کٹنی کے زہریلے پروپیگنڈے کو مات بھی دینی ہے۔ان تمام جھمیلوں میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر گھر گر ہستی یعنی ملکی ترقی کے بارے میں بھی سوچنا ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں ووٹ مانگنے کیلئے پھر سے جھولی پھیلانے کا وقت آئے تو کارکردگی دکھانے کیلئے کچھ تو ہو۔ اس حساب سے توسیاستدان بھی ایک طرح کا فنکار اور اداکار ہی ہوتا ہے۔اُسے ہر طرح کا بہروپ اختیار کرنا پڑتا ہے۔فن اور اداکاری کے جوہر دکھانا پڑتے ہیں۔جب آصف زرداری کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دینے کے بعد ملک سے باہر جانا پڑا تھا تو اس کے بعد کئی بار انہوں نے کچھ لوگوںکیلئے ’’سیاسی اداکار‘‘کی اصطلاح استعمال کی تھی مگر اب اچانک امریکی سفارتخانے کو میاں نوازشریف پر ’’سیاسی اداکار‘‘کی پھبتی کسنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اگر غیر ملکی ساز ش کے بیانئے میں رتی برابر سچائی ہوتی تو امریکی سفیر پیشگی مبارکباد پیش کرتے مگر انہوں نے تو چتائونی دیدی ہے کہ آپ چاہے الیکشن جیت بھی جائیں مگر وزیراعظم نہیں بن سکیں گے ،آپ کی حیثیت ’’پولیٹکل ایکٹر‘‘کی سی ہوگی۔کیا اسے بھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور غیر ملکی سازش سمجھا جائے؟