انتخابات اور سیاسی پولرائزیشن

عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی ہے ، ملک میں سیاسی پولرائزیشن میں توں توں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس پولرائزیشن کی وجہ سے جو دراڑیں پڑ رہی ہیں ، وہ صرف سیاسی ساخت ( Fabric) تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ یہ دراڑیں اپنا ٹیڑھا میڑھا راستہ بناتے پورے سماجی اور ریاستی فیبرک تک جائیں گی ، جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے ۔ پاکستان میں سیاسی استحکام لانے اورملک کو معاشی بحران سے نکالنےکیلئے قومی اتفاق رائے اور کسی میثاق کی جو باتیں ہو رہی تھیں ، وہ ختم ہو گئی ہیں، جن کی آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔

ویسے تو پوری دنیا میں عام انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر سامنے آجاتی ہیں اور بھرپور تنقید کرتی ہیں لیکن پاکستان کی طرح گالم گلوچ ، نفرت اور بے بنیاد الزامات کی سیاست نہیں کرتیں۔ انتخابات کے دوران مہم میں سیاسی پولرائزیشن دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات اس قدر خطرناک نہیں ہوتے ، جس قدر پاکستان میں ہوتے ہیں ۔ ایک طرف تو پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران میں مزید شدت آجاتی ہے اور دوسری طرف انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ پولرائزیشن ریاستی اداروں تک چلی جاتی ہے۔

اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سیاست کا انحصار نہ صرف عوام پر کم ہو گیاہے بلکہ وہ حقیقی ایشوز کی سیاست بھی نہیں کرتیں۔ وہ اقتدار کے حصول کیلئےریاست کی حقیقی مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی ہیں ۔ جو بھی حکومت انتخابات کے بعد اقتدار میں آتی ہے ، اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ قرار دیا جاتا ہے ۔ 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد ’’ پرو جیکٹ ‘‘ کی ایک اصطلاح رائج ہوئی ہے ۔ اب پاکستان کے موجودہ حالات پر کوئی بات کرتا ہے تو وہ اسے ’’ عمران پروجیکٹ ‘‘ کا منطقی نتیجہ قرار دیتا ہے ۔ آج پیپلز پارٹی کے رہنما مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ’’ پروجیکٹ ‘‘ نہ بنیں ۔ کچھ رہنما تو کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں ’’ نواز پروجیکٹ ‘‘ پر کام ہو رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے نہ صرف مقدمات ختم ہو رہے ہیں بلکہ ان چھوٹی جماعتوں کو بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنانے یا ’’ الیکٹ ایبلز ‘‘ کو مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کیلئے کہا جا رہا ہے ، جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر چلتے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے بعض حلقے بین السطور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری خود ’’ پروجیکٹ ‘‘ بننا چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کچھ غیر جانبدار اور باخبر صحافی اپنے وی لاگز میں کچھ اور تاثر دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف یا ان کی مسلم لیگ (ن) کو اسٹیبلشمنٹ کے تمام حلقوں کی حمایت حاصل نہیں ۔ کچھ حلقے پیپلز پارٹی کی بھی حمایت کرتے ہیں اور کچھ حلقے ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کے بھی حامی ہیں ۔ اگرچہ یہ مفروضہ ہو سکتا ہے لیکن اس مفروضے سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ پولرائزیشن کے اثرات اسٹیبلشمنٹ پر بھی مرتب ہو رہے ہیں ۔ اس مفروضے کو تقویت ماضی قریب کے واقعات سے ملتی ہے ، جب عمران خان کی حمایت اور مخالفت میں عدلیہ اور افواج میں واضح تقسیم نظر آئی ۔ حالانکہ اس طرح کی پولرائزیشن ماضی میں بھی ہوتی تھی لیکن اس قدر واضح نہیں تھی۔پہلے والی پولرائزیشن ابھی تک ختم ( Diffuse ) نہیں ہوئی ۔ اس لیے مستقبل کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ اللہ کرے کہ یہ صرف مفروضہ ہو لیکن ریاستی اداروں کو سیاسی پولرائزیشن کے اثرات سے محفوظ رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں سیاست میں ملوث نہ کیا جائے یا وہ خود ہی سیاست میں ملوث ہونے سے احتراز کریں۔انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں اور عوامی سیاست کو اپنا راستہ خود اختیار کرنے دیا جائے ، چاہے اس کے نتائج کچھ بھی نکلیں۔

میں اس بات کو مانتا ہوں کہ عوامی سیاست میں بہت بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ عوام کو بنیادی جمہوری دھارے سے الگ کرکے انہیں افقی اور عمودی طور پر بہت تقسیم کر دیا گیا ہے اور ان کے مابین اپنے ہی مسائل پر اتفاق اور اتحاد کے امکانات بہت حد تک ختم کر دیئے گئے ہیں لیکن اس بگاڑ کا علاج بھی آزادانہ سیاسی عمل ہے ، جس میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہ ہو ۔ پاکستان میں آزادانہ سیاسی عمل ایک دیوانے کا خواب ضرور ہے لیکن اس کی تعبیر ناممکن نہیں ۔ اس کیلئے کئی انتخابات میں آزادانہ سیاسی عمل کو یقینی بنانا ہو گا ۔ ابھی تو یہی لگ رہا ہے کہ آزاد انہ سیاسی عمل کے باوجود منقسم مینڈیٹ ہی آئے گا لیکن یہ سیاسی استحکام کیلئے اس قدر خطرناک نہیں ہو گا ، جس قدر مصنوعی سیاسی استحکام لانے کی کوششیں خطرناک ہوں گی ۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام پر اپنا انحصار بڑھائیں ، حقیقی ایشوز کی سیاست کریں اور سب سے بڑھ کر گالم گلوچ ، الزامات اور نفرت والا سیاسی بیانیہ ختم کریں ۔ اعلیٰ سیاسی اقدار کی بنیاد پر اختلافات کو منطق اور دلائل کی راہ پر لے آئیں ۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہو گی کہ اپنے اپنے منشور میں اپنا اپنا پروگرام دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی مفاہمت کا ایک با ب بھی منشور میں شامل کریں اور انتخابی مہم اس وعدے پر چلائیں کہ وہ انتقام یا کسی اور کے ایجنڈے کی سیاست نہیں کریں گے ۔ سیاسی ، سماجی ، لسانی ، مذہبی ، نسلی اور گروہی بنیادوں پر ہونے والی پولرائزیشن کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں میں جو پولرائزیشن کے حالیہ واقعات سامنے آئے ہیں ، انہیں مدنظر رکھا جائے کیونکہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج سے زیادہ پولرائزیشن کے نتائج ملک کے مستقبل پر زیادہ گہرے اثرات مرتب کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں