مرد اور عورت کی آزادی

پاکستان جیسے معاشروں میں خواتین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے اور اکثر بجا طور پر کہ لاکھوں برس سے مردوں نے انہیں استحصال کا نشانہ بنا رکھا ہے ۔ہومو سیپین کی تین لاکھ سال کی تاریخ اس کی گواہ ہے ۔یہ تو اب آکے عورت نے کسمسا کر آزادی حاصل کرنے کی ٹھانی ہے ۔جب بھی اس موضوع پر بات ہوتی ہے ، خواتین فوراً متحد ہو جاتی ہیں ۔ مغرب میں تو اب صورتِ حال بظاہر مختلف ہے ۔ بظاہر خواتین نے برابری حاصل کر لی ہے لیکن درحقیقت آج بھی وہ استحصال کا شکار ہیں ۔ انہیں مردوں کی طرح کمانا پڑتا ہے ؛حالانکہ اولاد بھی انہوں نے پیدا کرنا ہوتی ہے اور اسے دودھ بھی پلانا ہوتاہے۔

امریکہ اور یورپ میں عورتوں اور مردوں کی یہ برابری بڑی عجیب وغریب ہے ۔ زمین پہ تین لاکھ سال گزارنے کے بعد اور تمام حقوق ملنے کے بعد بھی صدر، وزیرِ اعظم ، آرمی چیف اور چیف جسٹس کے عہدوں تک خواتین شاذ ہی پہنچتی ہیں ۔ آج بھی خواتین ریپ ہوتی ہیں ۔ پاکستان ہی نہیں ، دنیا بھر میں آج بھی جسم فروشی پرخواتین ہی مجبور ہوتی ہیں۔

دوسری طرف سوائے جسمانی ساخت کے، مرد اور عورت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اصل عضو دماغ ہے ۔دماغی صلاحیت کے اعتبار سے عورتیں مردوں سے برابر بھی ہو سکتی ہیں اور زیادہ ذہین بھی۔

پاکستان اور افغانستان میں دو انتہائیں آپ کو ہر کہیں نظر آئیں گی۔ ایک طرف روایتی مذہبی طبقہ ہے۔ آج بھی بعض حلقوں میں مذہبی سیاسی جماعتیں یہ طے کر لیتی ہیں کہ عورتیں ووٹ نہیں ڈالیں گی۔ دوسرا طبقہ وہ ہے، جس کے خیال میں پاکستانی عورت کو اسی طرح مرد کے برابر آزادی حاصل ہونی چاہیے، جیسی کہ مغرب میں حاصل ہے۔ امریکہ میں طلاق کی شرح 53 فیصد، سپین، پرتگال اور ہنگری جیسے یورپی ممالک میں ساٹھ فیصد ہے۔ ساتھ رہنے کیلئے شادی وہاں ہرگز ضروری نہیں۔ بغیر نکاح کے آپ اکٹھے رہ سکتے۔

وہاں لاوارث بچوں کی وارث خود ریاست ہوتی ہے؛ چنانچہ بنیادی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوتی ہیں۔ اولاد کو وراثت میں سب کچھ ملتا ہے لیکن ان بچوں کی تعداد بہت کم ہے ، جنہیں ماں اور باپ دونوں کا ساتھ میسر ہو ۔ اس کا کتنا خوفناک اثر اولاد پہ پڑتا ہے ، یہ ایک ماہرِ نفسیات ہی بہتر جانتاہے ۔

مغربی ممالک میں ہر ادارہ آئین میں درج اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں فوج کے سوا ہر ادارہ ملیامیٹ ہو چکا۔ پاکستان جیسے معاشروں میں خواتین اب اعلیٰ تعلیم اور نوکری کرتے ہوئے استحصال سے نکل رہی ہیں لیکن خاندان کے معاشی مسائل سے لاتعلق رہنے کا آپشن اب بھی اس کے پاس ہے ۔ مغرب میں شاذ ہی ایسا ممکن ہے۔

عورت اور مرد کا دماغ ایک جیسا ہوتا ہے۔ برین سٹیم خالصتاً حیوانی دماغ ہے، جس میں عقل کا ایک فیصد گزر بھی نہیں۔ اس کے باوجود اس کی تشکیل یوں ہوئی ہے کہ زندگی برقرار رکھنے والے بنیادی افعال یہاں ماں کے پیٹ سے لے کر قبر میں اترنے تک جاری رہتے ہیں۔ یہ دل کو دھڑکنے کا حکم دیتا ہے اور پھیپھڑوں کو حرکت میں رکھتا ہے۔ سانس اسی کے حکم پر لیا جاتاہے ۔ معدے میں غذا ہضم کرانا اسی کا کام ہے۔ دوسرا دماغ لمبک سسٹم ہے، جذبات کی آماجگاہ۔ یہ بچوں میں کھیلنے کودنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ والدین میں اولاد کی محبت اسی میں جنم لیتی ہے۔ تیسرے، اوپر والے حصے میں عقل ہوتی ہے۔ انسان میں یہ دوسرے سب جانوروں سے اعلیٰ ہے۔ مرد میں اور عورت میں بھی۔ یوں دماغ کے اعتبار سے دیکھیے تو بظاہر مر د اور عورت برابر ہیں لیکن پھر بھی پوری طرح برابر وہ ہرگز نہیں۔

مرد ہو یا عورت، اس کرّہ خاک پہ دونوں آزمائے جار ہے ہیں۔ دونوں کے کاسہء سر میں عقل رکھی گئی ہے۔دونوں کو خدا کی شناخت تک پہنچنے اور اپنے نفس کی بجائے خدا کے احکامات پر عمل درآمد کا ہدف دیا گیا ہے۔ دونوں جہاں جسمانی طور پر مختلف ہیں، وہیں ان کے مزاج میں بھی فرق ہے۔ عورت کے سر پہ اولاد پیدا کرنے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہے۔ مرد خواہ الٹا لٹک جائے، وہ اولاد کو ماں جیسی توجہ نہیں دے سکتا ۔ مرد و زن میں برابری ممکن نہیں۔ مرد 9 ماہ تک عملی زندگی کے تقاضوں سے دور نہیں رہ سکتا۔ اسے کمانا ہوتاہے۔ جیسی تیمار داری عورت کرتی ہے، مرد کے بس کی بات نہیں۔ عائلی زندگی میں یہ بات سب سے اہم ہے کہ مرد اور عورت اس بات کو سمجھیں، غور کریں کہ انہیں اس دنیا میں کس لیے اتارا گیا ہے۔ یہاں اس سیارے پر جو وقت انہیں ایک ساتھ بتانا ہے،اس میں وہ ایک دوسرے کیلئے سہولت اور آسانی پیدا کریں، بجائے برسرِ جنگ رہنے کے۔ رہ گئی میاں بیوی کی لڑائی تو پاکستانی معاشرے میں پولیس ، ایف آئی آر کے اندراج اور عدالت میں عام طور پر وہی جیتتا ہے، جو زیادہ دولت مند، زیادہ با اثر ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں