سپریم کورٹ کے دو ٹوک موقف کے بعد عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے کسی قسم کے شکوک و شبہات باقی نہیں رہ جاتے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باضابطہ اعلان نے اس پر مہر ثبت کردی ہے لیکن اس وقت بھی سیاسی حلقوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ عام انتخابات کا انعقادفروری میں نہیں ہوگا۔گزشتہ روز آرمی چیف کی بریفنگ میں شرکت کرنیوالے ایک مذہبی جماعت کے سربراہ سے تفصیلی نشست ہوئی۔ نشست کا موضوع عام انتخابات اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ تھا۔آرمی چیف کی تصویر کو لے کر منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کے متعلق مولانا صاحب کہنے لگے کہ بلٹ پروف شیشے کے پیچھے بیٹھ کر خطاب کرنے کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔آرمی چیف تمام علماء کرام سے آکر بہت عزت سے ملے اور سامنے بیٹھ کر براہ راست تقریباًڈیڑھ گھنٹے کا خطاب کیا ۔جس میں کئی قرآنی آیات کے حوالہ جات نے ان کی گفتگو کو مزید موثر بنادیا۔آرمی چیف کی گفتگو کے بعد مختلف علمائے کرام نے بھی اپنا اپنا موقف پیش کیا۔حکومت کے مشیر ایک عالم دین کی خواہش تھی کہ موجودہ سیٹ اپ اسی طرح سے کم از کم دو سال چلتا رہے۔جس پر کسی نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔اسی طرح سے ڈالر کے ریٹ کے حوالے سے آرمی چیف نے اپنا ٹارگٹ طے کررکھا ہے کہ اسے ہر قیمت پر 250پر لے کر آنا ہے۔پاکستان کی معیشت کی بحالی کے حوالے سے آرمی چیف پر امید ہیں۔افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی علمائےکرام نے اپنے موقف سے آگاہ کیا۔بہرحال، المختصر یہ کہ آرمی چیف اور علمائے کرام کی نشست انتہائی خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں ہوئی۔جس میں بلٹ پروف شیشہ اور اس سے ملتی جلتی باتیں محض جھوٹ پر مبنی تھیں،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔
بریفنگ سے آنے والے مولانا صاحب اور خاکسار محو گفتگو تھے کہ مسلم لیگ ن کے صف اول کے رہنما بھی تشریف لے آئے۔ عام انتخابات پر دوبارہ گفتگو ہونے لگی۔مولانا صاحب کی رائے تھی کہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو لے کر ان کے دل میں اب بھی شکوک و شبہات موجود ہیں۔انہیں فروری میں عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ محفل میں موجود مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما نے بھی اپنا وزن مولانا صاحب کے پلڑے میں ڈال دیا۔مگر میری رائے کے مطابق عام انتخابات فروری کی مطلوبہ تاریخ سے ایک دن بھی آگے یا پیچھے نہیں ہونگے۔قارئین جانتے ہیں کہ جس وقت نگران حکومت کے قیام کے بعد ملک میں بااثر حلقوں کی اکثریت سمجھ رہی تھی کہ یہ سیٹ اپ کم سے کم بھی دو سال رہے گا ۔تب بھی خاکسار نے اگست اور ستمبر میں لکھے گئے کالمز میںفروری میں عام انتخابات کے انعقاد کی پیش گوئی کی تھی۔آج بھی پوری ذمہ داری سے اپنے قارئین کے گوش گزار کررہا ہوں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے وہ تاریخ جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی رضامندی شامل ہے۔ عام انتخابات اس سے ایک دن بھی تاخیر کا شکار نہیں ہوسکتے۔اگر اس وقت ملک میں عام انتخابات بروقت کرانے کا کوئی بڑاحامی ہے تو وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ہیں۔آرمی چیف ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے اور ملک میں مستقل سیاسی استحکام عام انتخابات کے بعد ہی آئے گا۔بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ نگران حکومت جس قسم کی پالیسیاں بنا رہی ہےاور راولپنڈی جس طرح ان پر عملدر آمد کرارہا ہے۔اس سے لگتا ہے کہ جلدی جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ان دوستوںکیلئے عرض ہے کہ آرمی چیف چاہتے ہیں کہ تمام سخت اور کٹھن فیصلوں کا آغاز اس نگران دور حکومت سے لے لیا جائے تاکہ آنے والی منتخب حکومت کیلئے ان فیصلوں کا تسلسل آسان ہو ۔جب کہ یہ بھی ان کی مثبت سوچ ہے کہ معیشت کی بحالی کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس کینسر کا علاج ریاست اور اس کے تمام ستونوں نے مل کر کرنا ہے۔اس لئے جب تک منتخب حکومت آکر اقتدار نہیں سنبھالتی اور اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے کا آغاز نہیں کرتی۔تب تک آرمی چیف ملک اور معیشت کو کسی نگران حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اپنے حصے کا ’’دیا‘‘جلا رہے ہیں۔کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ جب بھی نگران حکومت آتی ہے،ان چند ماہ میں ملک کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہوتا اور یوں ان چند ماہ میں معیشت کا ایسا بیڑا غرق ہوتا ہے کہ آنے والی منتخب حکومت کو کانٹے نکالتے نکالتے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔یہ ایک اچھی روایت ہوگی کہ آرمی چیف کی کوششوں سے نئی آنے والی منتخب حکومت کو قدرے بہتر پاکستان ملے گا اور اس کے لئے ان پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا اور ملک کو ٹیک آف کرانا قدرے آسان ہوگا۔اس لئے تمام سیاسی پنڈتوںکیلئے عرض ہے کہ عام انتخابات بہر صورت 8فروری کو ہی ہونگے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہئے۔