عطاالحق قاسمی نے لکھا کہ یہ جو بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مجھے وزیر اعظم بنایا جائے یہ ان کی ’’ست ماہی‘‘ خواہش ہے۔یعنی ابھی انہیں اور انتظار کرنا چاہئے ، ابھی وزیر اعظم نواز شریف ہو نگے۔جن پر حفیظ جالندھر ی کا یہ گیت بالکل فٹ ہے کہ’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘۔بے شک ان کیلئے ہوا بھی خوش گوار ہے ، گلوں پہ بھی نکھار ہے ۔وہ لندن ایئر پورٹ سے وزیر اعظم کے پروٹوکول کے ساتھ آئے۔بلاول بھٹو اور عطاالحق قاسمی دونوں کی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ وزیر اعظم عوام نے نہیںبنانا مگر ایک چیز قسمت بھی ہوتی ہے ۔ہمارا ایمان کہ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے ۔اس کی مرضی کے بغیر کوئی بادشاہ نہیں بن سکتا۔ شاید اسی چیز کو ہم قسمت کہتے ہیں۔ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ قسمت کا لکھا جان لے ۔لوگ لوگوں کی قسمتوں کا احوال بتاتے بھی ہیں ۔قسمت کیا ہے ۔خوش قسمت کون ہے۔ وہی سلگتا ہواسوال کہ لوح و قلم کیا ہے ۔ اس پہ کیا لکھا ہوا ہے۔کون خوش قسمت ہے اور کون بدقسمت۔میرا کالم پڑھنے والو۔یہ بتائوکہ تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو خود کوخوش قسمت سمجھتا ہے۔
’’جی آپ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں ،اپنے خوش قسمت ہونے کی کیا دلیل ہے آپ کے پاس‘‘
’’ جی میں اس لئے خود کوخوش قسمت ہوں کہ اپنی قسمت پر خوش ہوں‘‘
’’یہ تو واصف علی واصف کا جملہ ہے ۔ممکن ہے اپنی قسمت پر خوش رہنے والا خوش قسمت ہو…مگر میرے نزدیک خوش قسمت وہ ناراض آدمی ہے ۔جسے راضی کرنے کیلئے قسمت سرگرداں پھرتی ہے‘‘
’’ کیا آپ بتا سکتے ہیں میری قسمت میں کیا لکھا ہے‘‘
’’ جو تحریر ابھی تم نے لکھی ہی نہیں، اسے کیسے پڑھا جا سکتا ہے‘‘۔
’’جی یہ خوش قسمتی اور بدقسمتی میں اتفاقات کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے‘‘۔
’’اس بات پر مجھے ایک ایرانی کہانی یاد آرہی ہے ،بادشاہ کاخیال تھا کہ صبح سویرے جو اجنبی سامنے آئے وہ انسان کیلئے خوش قسمتی یا بدقسمتی کی علامت بن جاتا ہے۔بادشاہ شکار کیلئے نکلا تو اس کی نظر ایک تیزچلتے ہوئے اجنبی پر پڑی۔بادشاہ نےاسے پکڑ کربند کر دینے کا حکم دے دیا۔اتفاق سے اسکا شکار بہت اچھا ہوا بادشاہ نے شکار سے واپسی پر اس اجنبی کوبلایا اور کہا تم بادشاہ کیلئے خوش بخت ثابت ہوئے بتائو تمہیں کیا انعام دیا جائے۔ اس اجنبی نے بادشاہ سے کہا کہ اگرکسی دن کی سعادت یا نحوست کا دار ومدارپہلے ملنے والے اجنبی پر منحصر ہے تو کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ملنامیرےلئے بڑی بدبختی تھاکیو نکہ میں اپنے قریب المرگ بیٹے کے علاج کیلئے حکیم کو بلانے جا رہا تھا اور آپ نے پکڑکر بند کرادیامیں سارا دن بھوکا پیاسا رہاادھر گھر کی پریشانی الگ تھی۔ میں سمجھتا ہوں یہ میری زندگی کا منحوس ترین دن تھا ،کاش میں نے صبح سویرے آپ کو نہ دیکھا ہوتا‘‘۔
یہ قسمت ہوتی کیا شے ہے۔قسمت یا مقدر خدا کے مقرر کردہ قانون کو کہتے ہیں۔مثلاً پانی جب تک پانی ہے اس کا مقدر ہے کہ وہ مائع ہو اور نشیب کو بہے۔مگر یہی پانی جب اپنی حالت تبدیل کر لیتا ہے اور بخارات بن جاتا ہے تو اسکا مقدرہے کہ وہ نشیب کی بجائے بلندی کی طرف اٹھتا ہے۔ وہ مائع نہیں رہتا، گیس بن جاتا ہے،یہی پانی جب جم کر برف بنتاہے تو اسکا مقدر پھر بدل جاتا ہے۔پانی کی مختلف حالتیں کسی اور عامل کے عمل سے بدلتی ہیں مگر انسان اپنی حالت خود بدلتا ہےاور وہ جو حالت اختیار کر لیتا ہے۔اسی پر خدا کا مقرر کردہ قانون لاگو ہو جاتا ہے۔
’’یہ جوحکومتیں بدلتی ہیں اس میں تقدیر کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے۔آپ کہتے ہیںاقتدار اللہ کی طرف سے ملتا ہے‘‘۔
’’ہاں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے بغیر خشک پتا بھی ٹوٹتے ہوئے شور نہیں کر سکتا مگر یہ بات بھی طے ہے کہ جس طرح کے لوگ ہوتے ہیں وہ اسی طرح کے حاکم نازل کرتا ہے…اگر تمہیں صاحبانِ اقتدار سے شکایت ہے کہ وہ اچھے لوگ نہیں۔تو تم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھوکہ تم میں کیا کیا خرابیاں ہیں۔جیسے جیسے تم اپنی خرابیاں دور کرتے جائو گے ویسے ویسے حکمران بدلتے جائیں گے‘‘۔یہ جومیں نے اپنے پڑھنے والوں سے گفتگو کی ہے ۔اس کا مقصد صرف اتنا کہ کوئی ضروری نہیں کہ کل وزیر اعظم کون ہوگا۔یہ بھی ضروری نہیں کہ جو ہوگا وہ انوار الحق کاکڑ ہوگا یااس کے برعکس واقعتاً اقتدار اعلیٰ پر فائز ہوگا۔یہ باتیںلوح ِ تقدیر پر لکھی ہوئی ہیں اور اقبال نے کہاتھا’’ نگاہ ِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ ۔مردمومن کی تلاش جاری ہے۔
اگلا وزیر اعظم کسے ہونا ہے اس کا فیصلہ نہ تو بلوچستان میں نواز شریف کے شاندار دورے سے ہو سکتاہے اور نہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے پشاور میں اپنی بھرپور طاقت کے اظہار سے ۔ فیصلہ کن صوبہ پنجاب ہے اورہونا وہ ہی ہے جو یہاں رہنے والوں کے دلوں میں تقدیر کے مالک نے ڈال دینا ہے ۔