چند برس پہلے تک میرا فیصل آباد آنا جانا رہتا تھا وہاں چناب کلب میں بہت معیاری مشاعروں کا اہتمام بڑے سلیقہ سے کیا جاتا تھا ۔ان دنوں ریاض مجید اور انور محمود خالد، آپ سمجھیں ادب کے گھنٹہ گر تھے ۔انور محمود خالد اللہ کو پیارے ہو گئے اور ریاض مجید الحمدللہ اپنے پیاروں کے درمیان موجود ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مشاعرے کے بعد منیر نیازی، ریاض مجید اور راقم بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔منیر بتا رہے تھے کہ’’ ایک دن میں صغریٰ (بیگم) کے ساتھ گھر میں بیٹھا تھا کہ اچانک ایک کونے سے سانپ نکل آیا اس کے بعد منیر نے سانپ کو رومینٹسائز کرنا شروع کر دیا، نکھری نکھری سی خوبصورت شام تھی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور سیاہ رنگ کا سانپ پھن پھیلائے ہمارے سامنے کھڑا تھا مگر یہ عورتیں بہت ظالم ہوتی ہیں صغریٰ نے ڈنڈا اٹھایا اور اسے مار ڈالا‘‘ اس پر ریاض مجید کی رگ ظرافت پھڑکی اور منیر کو مخاطب کرکے کہا دراصل آپ کی بیوی نے سوچا ہو گا کہ ایک گھر میں ایک ہی کافی ہے۔
فیصل آباد اور منیر نیازی کے حوالے سے ایک اور واقعہ یاد آیا مشاعرے کے بعد ایک صاحب نے ہمیں اپنی کار میں لاہور ڈراپ کرنا تھا مگر وہ کسی وجہ سے نہ جا سکے اور ان کی جگہ ایک اور صاحب کو جو اُن کے ہم نام تھے، چلیں ان کا ایک فرضی نام نویدلاہوری رکھ لیتے ہیں ،انہوں نے اس کام کو اپنا اعزاز سمجھا کہ یہ منیر کے عاشقوں میں سے تھے سو انہوں نے ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھایا اور لاہور کی طرف چل دیئے۔ منیر نیازی اس وقت سرشاری کے عالم میں تھے انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا ’’یہ وہی بدبخت ہے جس نے ہمیں لاہور لے جانے سے انکار کیا تھا میں نے عرض کی کہ منیر صاحب خدا کا خوف کریں وہ نوید دوسرے تھے یہ تو آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور اسی محبت کی وجہ سے انہوں نے یہ ذمہ داری خود اٹھانا اپنے لئے باعث افتخار سمجھا۔ اس پر منیر خاموش ہو گئے رستے میں منیر نے ایک ڈھلوان کے قریب جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھی گاڑی روکنے کےلئے کہا اور پھر وہاں اکڑوں ہو کر بیٹھنے لگے تو ان کی ’’الٹ بازی ‘‘ (قلابازی ) لگ گئی جب کچھ دیر تک واپس نہ آئے تو میں نیچے اترا اور دیکھا کہ منیر صاحب کا سر نیچے گھاٹی میں اور دھڑاوپر کی طرف تھا ،بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔ انہیں اٹھا کر کار میں بٹھایا اور کار میں بیٹھتے ہی انہوں نے دو باتیں کیں ایک یہ کہ تم مجھے اس حالت میں دیکھ کر ہنسے کیوں تھے اور دوسرے ڈرائیور کی سیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ وہی خبیث آدمی ہے جس نے ہمیں لاہور لےجانے سے انکار کیا تھا ۔فیصل آباد کے صنعتی شہر اور ادبی ماحول کے علاوہ ایک نشانی اور بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ شہر جگت بازوں کا شہر ہے اور پوری دنیا میں پنجابی بولنے والے لوگوں کو ان کے غم بھلا کر ہنسنے ہنسانے میں لگا رہتا ہے ان دنوں یہاں رانا اعجاز صاحب اپنی ویڈیو زکے ذریعے اس نیک کام میں لگے ہوئے ہیں ۔
خیر یہ باتیں تو کھانے سے پہلے سوپ کی حیثیت رکھتی تھیں بتانا یہ تھا کہ گزشتہ شام میں عزیر احمد کے ساتھ اس زندہ دلوں کے شہر میں تھا یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ میں نے جو دنیا کے ایک سرے سے دنیا کے دوسرے سرے تک ادبی کانفرنسوںاور مشاعروں کے حوالے سے رنگا رنگ دنیا دیکھی تھی اس کے علاوہ اوائل جوانی میں دو سال امریکہ میں گزارے، جس کا سفر نامہ ’’شوق آوارگی ‘‘ بہت مقبول ہوا۔نیزناروے اور تھائی لینڈ میں سفارت کے دوران مزید ممالک دیکھنے کا اتفاق ہوا اور یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اب تقریباً دو سال سے صرف لندن اور دبئی گیا ہوں پاکستان کے مختلف شہروں سے موصول ہونے والی تقریبات کے دعوت ناموں پر صرف حسرت بھری نظر ڈالتا ہوں اور معذرت کا میسج ارسال کر دیتا ہوں اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ اپنی ان ساٹھ سالہ مصروفیات سے تھک گیا ہوں اس کے علاوہ بقول استاد امام دین ’’میرے گوڈوں میں درد جگر ‘‘ شروع ہو گیا ہے، تاہم جب بہت اچھے شاعر شہزاد بیگ نے مجھے ساندل کالج کے مشاعرے میں مدعو کیا اور ان کے بعد کالج کے پرنسپل چودھری عباس کی طرف سے بھی کال آئی ،وہ ایم اے او کالج میں میرے شاگرد رہے ہیں خدا کا شکر ہے کہ میرے شاگردوں میں کچھ ڈھنگ کے لوگ بھی ہیں یا ایک اور صاحب سے ایک بار ملاقات ہوئی انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملانے کی بجائے سلیوٹ کیا اور کہا میں آپ کا شاگرد رہا ہوں بتایا وہ ایس پی پولیس تھے ۔بہرحال میں تو کالج دیکھ کر حیران رہ گیا یونیورسٹی لگتی تھی، برابر میں پرنسپل صاحب کا گھر تھا مشاعرے میں کالج کے اساتذہ اور طلبا و طالبات بھی صرف موجود نہیں تھے بلکہ اپنی موجودگی کا بھرپور مظاہرہ بھی کر رہے تھے۔ مجھے اس پر بھی خوشی ہوئی کہ یہ کالج جو یونیورسٹی نہیں ہے مگر یہاں کو ایجوکیشن ہے کچھ طلبا نے اور کچھ اساتذہ نے اپنا کلام سنایا شہزاد بیگ بہت عمدہ شاعر ہیں اور ان کے علاوہ ایک صاحب جو اسٹیج پر میرے برابر تھے نام یاد نہیں مگر وہ بارہ شعری مجموعوںکا خالق ہیں اور انہوں نے اقبال کی زمینوںمیں نعتیں بھی کہی ہیں کالج کا نظم ونسق اور طلبا و اساتذہ کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا جس کاسب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نےتمام شاعروں حتیٰ کہ مجھے بھی کھل کر داد دی ۔