نئی سیاسی جماعت نہیں، نئی سیاسی سوچ

قارئین: آج کل پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت کی خبریں گردش کر رہی ہیں جس کو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر سے منسوب کیا جارہا ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں، سیاسی تجربے اور ملک و قوم کی فکر میں کوئی شک نہیں مگر پاکستان کی سیاسی ثقافت کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو چلانے کیلئے ان صلاحیتوں اور خوبیوں کے علاوہ پیسہ اور طاقت کی پشت پناہی بھی چاہیے ہوتی ہے اور عوام کے علاوہ کسی اور طاقت کی پشت پناہی سے اقتدار میں پہنچنے والے کبھی آزاد فیصلے نہیں کرسکتے جس کا تجربہ ان صاحبان کو بھی بخوبی ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ہم نے ان کواپنے ناخوشگوار تجربات اور بے بسی کا اکثراظہار کرتے بھی سنا۔نئی سیاسی جماعت بنانے کی بجائے پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کو ہی جمہوری بنا کر اصولی سیاست پر مامور کرکے ان سے ملکی خوشحالی اور ترقی کا کام لینے کیلئے ان کو کسی ایک قومی ترقی کے منشور پر یکجا کرنے کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ اپنے باہمی اختلافات کی بنیاد پر جمہوریت سے بدلہ لینے کی بجائے اپنی اور ایک دوسرے کی اصلاح سے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے اور جمہوریت مخالف سوچوں سے ریاست اور اداروں کو محفوظ کر کے اس کو تقویت بخشی جائے۔ہماری ضرورت نئی سیاسی جماعت نہیں نئی سیاسی سوچ ہے۔لہٰذااس وقت پاکستان میں سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ نئی سیاسی سوچ کی ضرورت ہے جو سیاستدانوں کو اصولی سیاست اور جمہوری اقدارکا پابند بنائے۔ وہ سیاست کو اپنے ذاتی مفادات کی بجائے ملک و قوم کی خدمت کیلئے استعمال کریں اور غیر جمہوری طاقتوں کا آلہ کار نہ بنیں ۔ سیاستدانوں کے درمیان ایک رابطے کا پل بن کر ان کی صلاحیتوں کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم رہے ہیں انکو پاکستان کے سیاسی حلقوں اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی پذیرائی حاصل ہے لہٰذا ان کو چاہیے کہ غیر متنازع اورغیر جانبدار سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر ان کے درمیان ایک برج کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کو قائل کرکے آئین کی بالادستی کو یقینی بنائیں تاکہ قومی صلاحیتوں کو آپس کی باہمی کشمکش میں ضائع کرنے کی بجائے قومی ترقی و خوشحالی پر صرف کیا جاسکے۔میرے خیال میں اگر وہ سیاسی جماعت بنائیں گے تو اپنا سیاسی نقصان کریں گے۔مفتاح اسماعیل معاشی ماہرین کے ساتھ مل کر کوئی ایسا معاشی پلان تیار کر سکتے ہیں جس پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ان کو اپنے باہمی اختلاف بھلا کر ملکی خوشحالی اور ترقی کیلئے اس پر متفق کیا جائے اور کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جس سے ہر سیاسی جماعت کواس کے مینڈیٹ کے مطابق صوبائی اور قومی سطح پر عوامی خدمت کیلئے حکومت میں حصہ دیا جاسکے۔

اس وقت سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ تمام جماعتیں مل کر عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے عملی اقدامات کریں ۔جس کی اشد ضرورت ہے ،نگراں حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں جب 58روپے تک کا اضافہ کیا تو پاکستان ریلوے کے ٹکٹوں سمیت ملک بھر میں ہر چیز کی قیمت بڑھا دی گئی تھی اور وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ قرار دیا گیا تھا ۔نگراں حکومت میں چاول، چینی اورآٹے سمیت روز مرہ کے استعمال میں آنیوالی تمام اشیا گھی ،تیل ،سبزیوں کے نرخوں میں تاجروں اور بڑی کمپنیوں نے من مانا اضافہ کیا اور بعد میں یہ اضافہ بڑھتا ہی رہا۔پھلوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔گوشت ،مرغی و مچھلی کے مقابلے میں غریب اپنی ضرورت سبزیوں سے پوری کر لیتے ہیں مگر اکتوبر میں پیاز ، آلو اور مرچ کے نرخوں میں کمی کے بعد پھر اضافہ کر دیا گیا جبکہ دالوں کے نرخ پہلے ہی زیادہ ہو چکے ہیں اور اب تو سبزیاں بھی غریب کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔نگراں حکومت نے اکتوبر میں پیٹرول کے نرخوں میں 48روپے لیٹر کمی کی جس سے ملک میں چینی کی قیمت 200روپے سے کم ہو کر 150روپے کلو تک آگئی ،مگر بیکرز اور مٹھائی والے جو قیمتیں بڑھانے میں تیز ہیں انہوں نے قیمت کم نہ کی ۔ملک میں چاول جو بہت مہنگے ہوگئے تھے وہ سیل کم ہونے پر کچھ سستے ہوئے لیکن جو نہ ہونے کے برابرہی ہے ۔روز مرہ کے استعمال میں آنے والی اشیا جن میں سبزیوں ،دالوں کے علاوہ بیکری آئٹمز اور پھل شامل ہیں ان پر انتظامیہ کا پنجاب کے سوا کہیں بھی کنٹرول نہیں ۔نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی ذمہ داری بس یہیں تک تھی کہ وہ بیان جاری کردیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے کے بعد قیمتوں میں کمی کے فوائد لوگوں تک پہنچائیںگے، مگر ایسا نہیں ہوا۔قیمتوں میں کمی سے عوام کو تو فائدہ نہیں ہوا مگر منافع خوروں نے قیمتیں کم نہیں کیںاور اپنا منافع بڑھالیا ۔پاکستان ریلوے نے بھی نگراں دور میں 2بار کرایہ بڑھایا مگر ڈیزل کی قیمت کم ہونے پر کرائے کم نہ کئے تو ملک کے ٹرانسپورٹرز کرائے کیوں کم کرتے ۔مہنگائی بڑھنے کا ذمے دار افسران اور پوش طبقہ ہے جو اگر کبھی خریداری کرنے چلا جائے تو وہ نرخ نہیں پوچھتااور آرڈر کرکے منہ مانگی رقم دکانداروں کو اداکردیتا ہے۔جس طرح نگراں حکومت نے حکومتی نقصانات کم کرنے کیلئے گیس و بجلی کی چوری روکنے اور بقایاجات کی وصولی کیلئے سختی اور جرمانے کا ریکارڈ بنایا ہے اس طرح صوبائی نگراں حکومتیں بھی اپنے صوبوں میں گراں فروشوں ، ذخیرہ اندوزوں اور عوام کو مہنگی اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف دکھاوے کے بجائے حقیقی قانونی کارروائیاں کریں ، چھاپے ماریں اور جرمانوں کے علاوہ ناجائز منافع خوروں کو گرفتار کرکے جیلوں میںڈالیں تو خود ساختہ مہنگائی پر کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ریلیف دیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں