1964 میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان اور مادر ملت فاطمہ جناح کے مابین صدارتی معرکہ ہوا تو لگا کہ آمریت شکست کھا جائے گی اور جمہوریت فتح مند ہوجائے گی۔ شاعرانہ مزاحمتی اور جمہوری بیانیہ عوامی شاعر حبیب جالب کی نظموں نے ایسا جمایا کہ خلقت میدان میں نکل آئی۔ ایسا نہ ہوسکا، پھر عوام 1968 میں سڑکوں پر نکلے اور پہلی فوجی آمریت کو شکست ہوئی، آزادانہ انتخابات ہوئے، لگا کہ جمہوریہ بس اب بننے کو ہے، لیکن ملی بھی تو ایک خون آشام شام اور اسکے طفیل 1973 کی جمہوریہ جس کے خالق کے مقدر میں مصلوب ہونا لکھا گیا۔ پھر ایک اور آمریت کی طویل رات اور بحالی جمہوریت کی زخموں سے چُور تھکا دینے والی لمبی جدوجہد۔ پردہ غیب سے فضائی حادثے نے جمہوریہ کی راہ کھولی بھی تو وہ دُم کٹی نکلی۔ ایک اور مرد آہن کی آمد ہوئی اور ایک اور دہائی گزرگئی، لیکن اس بار جمہوری دورانیہ ذرا طویل تو ہوگیا، لیکن چارٹر آف ڈیموکریسی سے انحراف کے باعث اپنی ساکھ گنوا کر۔ اس بے ثمر طویل تاریخی عمل سے برآمد ہوئی بھی تو ہائبرڈ نظام کی بدلتی صورتیں۔ ایک لاڈلا گیا تو دوسرے لاڈلے کی تیاری۔ بس 2018 کا ری پلے مگر اس فرق کے ساتھ کہ جو کبھی بے مثال تھا وہ نشان عبرت ٹھہرا، اور جو راندہ درگاہ تھا، وہ اب دل پذیر لاڈلا بننے کی خفت چھپائے نہیں چھپا پارہا۔ یہ وہ تماشہ ہے، جو جانے کب ختم ہو اور جمہوریت آمرانہ شکنجے سے آزاد ہو۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں اک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ پرانی (بورژوا) جمہوریت پہ رونا دھونا پرولتاری سیاست کو زیب نہیں دیتا، بھلے ترمیم پسندی یا یوں کہیے سوشل ڈیموکریسی کا کیسا ہی تڑکا لگایا جائے۔ سوچتا ہوں کہ کس جمہوریت پسند نے جمہوریت کو بٹا نہیں لگایا اور آخر میں پتا پڑتا ہے کہ آخری تجزیہ میں جمہوریت کا آفاقی تصور ہے ہی حکمران طبقات کے مفاد کا نفیس جامہ۔ اب عالمی سرمائے کے بحران اور قدرت کی تباہی کے زمانے میں تو بعد از جنگ نیو لبرل آرڈر پر تو قبضہ ہی انتہائی دائیں بازو کا ہوگیا اور جمہوریت کا مہذب سوشل ڈیموکریٹک ایڈیشن کینزئین اور نیو کینزئین اکنامکس اور عالمی اجارہ سرمایہ داری کے ہاتھوں کہیں دریا برد ہوگیا ہے۔ کہیں دور لاطینی امریکہ میں کوئی شمع جلتی بھی ہے تو عالمی اندھیرے میں کہیں گم ہوکے رہ جاتی ہے۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ، برازیل کے سابق صدر جیئر بولسنارو، ہنگری کے صدر کیتیلین نویک، بھارت کے ہندو انتہا پسند نریندر مودی یا پاکستان ہی کے سابق وزیراعظم عمران خان اور چوتھی بار وزیراعظم بننے کے اُمیدوار یا پھر یورپ میں ابھرتی نسل پرست اور فسطائی جماعتوں کے چلن لبرل جمہوری ہیں؟ یوں لگتا ہے کہ انتہائی دائیں بازو نے لبرل ازم کو تیاگ دیا ہے ۔ لبرل ڈیموکریسی کے اس عالمی بحران میں امریکہ اور اس کے جی 7 گروپ کے اتحادیوں نے صہیونی فسطائی نیتن یاہو کی پی ایل او کے مقابلے میں اپنی حمایت کردہ حماس کی اشتعالی مہم جوئی کا بہانہ بناتے ہوئے مقبوضہ غزہ و مغربی کنارے پہ محبوس فلسطینیوں کا جو قتل عام (Genocide) کیا ہے، اسکی بھرپور سرپرستی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایسا کر کے انہوں نے انسانیت کے قتل عام اور عالمی انسانی قوانین کی تنسیخ کردی ہے۔ تو پھر انکی لبرل ڈیموکریسی کے پلے رہ کیا گیا ہے۔ اب ہر دو اطراف کے عوام یا اسلامو فوبیا کی نذر ہوجائیں یا پھر دشمنی کی لپیٹ میں آجائیں تو جمہوریت اور لبرل ازم کے پلے کیا بچ رہے گا؟ البتہ جو سامنے آرہا ہے وہ کم شاندار نہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ میں فلسطینیوں کی آزادی اور جنگ بندی کیلئے جو عظیم الشان مظاہرے ہوئے ہیں، وہ عالمی سامراج کے منہ پہ طمانچہ ہیں۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں یہودی بچوں نے فلسطینیوں سے جس محبت کا اظہار کیا ہے اور خود اسرائیل میں نیتن یاہو مخالف امن و جمہوریت کی تحریک ،انسانیت کیلئے نئی اُمید پیدا کرتی ہے۔ ایک بار فلسطینی مصنف ایڈورڈ سعید نے یاسر عرفات سے کہا تھا کہ جب تک امریکہ اور مغرب میں رائے عامہ فلسطینیوں کے حق میں بیدار نہیں ہوگی، مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوگا۔ شاید ایڈورڈ سعید کی یہ پیشگی شرط بر آئے۔ ایسے میں اُمہ کے خیالی جہاد اور عربوں کی قوم پرستی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ جو راہ القاعدہ، داعش، طالبان اور اب حماس نے دکھائی تھی وہ نہ صرف مہم جوئی ثابت ہوئی بلکہ اس نے مسلم دنیا کو تباہی سے دوچار کر کے بند گلی میں دھکیل دیا۔ اسی طرح مغرب جمہوریت کے رائٹ ونگ ایڈیشن نے اپنا خوفناک، غیر انسانی اور غیر لبرل چہرہ دنیا کو دکھایا ہے، تو عالمی سطح پر عالمی اجارہ دار سرمایہ داری ایک تہذیبی بحران، ماحولیاتی تباہی اور جنگ بازی سے دوچار ہوگئی ہے اور اس کے پلے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچا۔
ان دگرگوں حالات میں کوئی دیکھے تو کس طرف؟ اگلی دو تین دہائیوں میں دنیا کی عالمی بساط بدلنے والی ہے۔ ترقی کا سفر مغرب سے مشرق، شمال سے جنوب اور ایشیا کی جانب مڑ رہا ہے۔ جہاں ابھی جمہوری شراکت داری اور عوامی اقتدار کی منزل مغرب سے بھی کوسوں دور ہے۔ لیکن جب ہم ایمپائر کے عروج و زوال کی تاریخ دیکھتے ہیں یا دو عظیم جنگوں کی وجوہات کا مطالعہ کرتے ہیں اور حال کی دہائیوں میں سوویت یونین امریکہ کے مابین سرد جنگ کا انجام دیکھتے ہیں اور پھر یک قطبی دنیا یا واحد سپر پاور کے زوال کا آغاز اور ایک کثیر قطبی دنیا کا اُبھار دیکھتے ہیں تو یہ بڑے خطرات سے خالی نہیں۔ ابھی سے تیسری عالمی جنگ کے امکانات اور اسکے ممکنہ سدباب کی باتیں ہورہی ہیں۔ انہی دنوں APEC ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن کا اجلاس امریکہ میں اختتام پذیر ہوا ہے جس میں صدر بائیڈن اور چین کے صدر ژی جن پنگ کے مابین چوٹی کی ملاقات ہوئی۔ لگتا ہے کہ تنائو کم ہوا ہے اور امریکہ اور چین کسی سمجھوتے کی طرف بڑھنے پہ مائل ہوئے ہیں۔ لیکن چینی صدر کی عالمی انسانیت کے سانجھے مستقبل کی خواہش، عالمی سرمائے کی خونخوار جبلتوں کے آگے کب تک ٹھہر سکے گی اور چین کی مارکسی واپسی ہوگی یا پھر یہ بھی ایک نئی سپر پاور بن کر سامنے آئے گا…؟ مائو نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں گڑ بڑ ہے ، حالات بہت اچھے ہیں۔ شاید انہوں نے یہ چین کے حفاظتی نقطہ نظر سے کہا تھا۔ دنیا میں واقعی گڑ بڑ بہت ہے اور حالات بھی بہت ہی خراب ہیں۔ پاکستان میں تو ہم اپنے حالات بگاڑنے پہ ایسے تلے ہیں کہ کسی کو پروا نہیں۔ بی بی جمہوریت تو فارغ کردی گئیں، معیشت بحال نہیں ہورہی اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس سے پہلے کہ ایک اور نسل ضائع ہو، کوئی تو مستقبل کا پاسبان بنے۔ وہ نہیں جو مقدر ڈبونے والے ہیں، وہ جو نئے مقدر کے پاسبان بنیں! مستقبل کے پاسبانو، کہاں ہو؟