ایک طرحدار سیاستدان کی رخصتی

رسالدار میرداد خان کے پوتے اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے سب سے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب خان نے ماشااللہ لمبی، صحت مند، خوشحال عمر (چھیاسی برس) پائی۔

آپ اس عسکری، صنعتی، سیاسی اشرافیہ کا معروف چہرہ تھے جو پچھلی ساڑھے سات دہائیوں سے پاکستان کا مسلسل تعارف ہے۔

آپ کے چچا سردار بہادر خان ایوبی خاندان کے پہلے سیاستدان تھے جو قیامِ پاکستان سے قبل صوبہ سرحد کی سیاست میں فعال تھے۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کی وفاقی کابینہ کے رکن، صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے وزیراعلی اور بلوچستان کے چیف کمشنر رہنے کے علاوہ انیس سو باسٹھ تا چونسٹھ اپنے ہی بڑے بھائی کی حکومت کی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہے۔

گوہر ایوب خان کی اکلوتی ہمشیرہ بیگم نسیم ریاست سوات کے ولی عہد میاں گل اورنگزیب کی اہلیہ تھیں اور انھوں نے اپنے والد کے ہمراہ بطور دخترِ اول بیرونِ ملک متعدد بار پاکستان کی نمائندگی کی۔ مگر عملی سیاست کے بجائے فلاحی کاموں کو ترجیح دی۔

صدر اسکندر مرزا سے استعفیٰ لینے کا منصوبہ

گوہر ایوب خان کی زندگی کے اُتار چڑھاؤ منفرد ہیں۔ وہ بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سینڈہرسٹ ملٹری اکیڈمی میں گئے اور انیس سو ستاون میں پاکستانی فوج میں کمیشن پایا۔ مگر انیس سو باسٹھ میں مبینہ طور پر نظم و ضبط کے مسائل کے سبب قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔

گوہر ایوب خان کسی پاکستانی حکمران کے پہلے اے ڈی سی تھے جو رشتے میں ان کے والد بھی تھے۔ وہ اپنے والد کے معاملات میں کتنے دخیل تھے، اس کا ثبوت وہ واقعہ ہے جو گوہر ایوب خان نے اپنی دو ہزار سات میں شائع ہونے والی کتاب ’گلمپسز ان ٹو دی کاریڈورز آف پاور‘ ( ایوانِ اقتدار کے مشاہدات) میں شامل کیا۔

’جب صدر اسکندر مرزا نے آئین برخواست کر کے والد (ایوب خان) کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا تو اسکندر مرزا کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صدر سے زیادہ طاقتور عہدہ ہوتا ہے۔ جب ایوب خان مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے تو اسکندر مرزا نے ائرکموڈور مقبول رب اور بریگیڈیر قیوم شیر سے کہا کہ جیسے ہی ایوب خان ڈھاکہ سے واپس کراچی پہنچیں انھیں گرفتار کر لیا جائے لیکن انٹیلیجنس ایجنسیاں صدر کے فون ٹیپ کر رہی تھیں۔‘

’جب ایوب خان کراچی پہنچے تو گھر کی دہلیز پر لیفٹیننٹ جنرل موسیٰ، میجر جنرل یحیٰی خان، میجر جنرل عبالحمید اور میجر جنرل شیر بہادر انکا انتظار کر رہے تھے۔ وزیرِ اعلی ہاؤس میں ان جرنیلوں کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ملٹری انٹیلیجینس کے ڈائریکٹر بریگیڈیر محمد حیات نے شرکا کو اسکندر مرزا کے ارادوں سے آگاہ کیا۔ میجر جنرل یحیی خان اور میجر جنرل عبدالحمید نے کہا کہ اس سے پہلے کہ صدر فوج میں نفاق ڈالنے میں کامیاب ہو، اسے ہٹا دیا جائے۔

ستائیس اکتوبر کو ایوانِ صدر میں گارڈن پارٹی ہو رہی تھی جس میں مارشل لا کے اعلی حکام بھی شریک تھے۔ اس پارٹی کے بعد صدر کے استعفی کے خط کا متن جنرل یحیی اور حمید نے لکھوایا اور یہ خط میجر مجید ملک (جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل اور وفاقی وزیر بنے) نے ٹائپ کیا۔ طے ہوا کہ نصف شب کو لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان، لیفٹیننٹ جنرل ڈبلیو اے برکی اور لیفٹیننٹ جنرل کے ایم شیخ ایوانِ صدر جا کر اسکندر مرزا سے استعفے پر دستخط کروائیں گے اور پنجاب رجمنٹ کی نائنتھ کمپنی ایوانِ صدر کے پولیس محافظوں کو غیر مسلح کرے گی۔‘

اس میں مزید لکھا ہے کہ ’ساڑھے گیارہ بجے شب والد نے ان تینوں جرنیلوں کو رخصت کیا۔ جاتے جاتے جنرل اعظم نے مجھ (گوہر ایوب) سے ہتھیار مانگا اور میں نے اپنا چھ گولیوں سے بھرا ریوالور اور چھ اضافی گولیوں کا پاؤچ ان کے حوالے کر دیا۔ اس موقع پر جنرل برکی نے اپنے بوٹوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ میں اس طرح سے اسکندر مرزا کے پاس جاتے ہوئے خود کو کتا محسوس کر رہا ہوں کیونکہ کچھ ہی دیر پہلے میں نے اس کے ساتھ کھانا کھایا ہے۔‘

’ایوانِ صدر کی فون لائنیں کاٹ دی گئیں۔ محافظوں کو غیر مسلح کر دیا گیا۔ تینوں جرنیل پہلی منزل کے ڈرائینگ روم میں پہنچے اور عملے کو کہا کہ وہ صدر کو اطلاع دے دیں۔ جب صدر اور ان کی اہلیہ ناہید کو دروازہ کھٹکھٹا کر خبر دی گئی تو جرنیلوں کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی ناہید نے ہذیانی انداز میں چیخنا شروع کر دیا۔

گوہر ایوب خان

’صدر مرزا نائٹ گاؤن پہنے باہر نکلے جس کی جیب میں موجود پستول پر ان کا ہاتھ تھا۔ صدر ڈرائنگ روم میں پہنچے تو جنرل اعظم نے آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے استعفے کا کاغذ اور قلم صدر کی طرف بڑھا دیا۔

صدر چند سیکنڈ ہچکچائے تو جنرل اعظم نے بلند آواز میں کہا ’اس پر دستخط کردو‘ اور صدر نے دستخط کر دیے۔ انھیں بتایا گیا کہ انھیں چند روز کے لیے کوئٹہ بھیجا جا رہا ہے جہاں سے لندن روانہ کردیا جائے گا۔‘

فسادی منصوبہ بندی کا الزام

گوہر ایوب خان کسی بھی پاکستانی حکمران کے پہلے صاحبزادے تھے جنھوں نے کھل کے سیاست میں حصہ لیا۔ انیس سو چونسٹھ کے صدارتی انتخابات میں انھوں نے کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ نہ صرف محترمہ فاطمہ جناح کے مدِ مقابل اپنے والد کی انتخابی مہم میں بھرپور کردار ادا کیا بلکہ غیر شفاف انتخابات کے نتیجے میں کامیابی کے اعلان کے دو روز بعد چار جنوری انیس سو پینسٹھ کے دن جشنِ فتح منانے کے لیے کراچی کے اس حساس علاقے (لیاقت آباد) کو چنا جو فاطمہ جناح کے متوالوں کا گڑھ تھا۔

حالانکہ اس دن شہر میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ تھی مگر اٹھائیس سالہ ولی عہدِ عصر گوہر ایوب خان کی قیادت میں کراچی کی ٹرانسپورٹ برادری کا ایک مسلح جلوس بسوں، ٹرکوں اور رکشوں کی طویل قطار کی صورت علاقے میں داخل ہوا۔ اور پھر دما دم مست قلندر شروع ہو گیا۔

اگلے چوبیس گھنٹے کے بعد کے ابلاغی تخمینے کے مطابق تینتیس ہلاکتیں ہوئیں، تین سو کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے۔ دو ہزار کے لگ بھگ دوکانوں، مکانوں اور جھگیوں کا جزوی و کلی نقصان ہوا۔ ایک مقامی شہری شمس الدین کی مدعیت میں پرچہ کٹا جس میں گوہر ایوب خان اور اشرف خان پر قتل اور فسادی منصوبہ بندی کا الزام لگایا گیا۔ (تب تک ماسٹر مائنڈ اور سہولت کار کی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی تھی)۔

جب نیویارک ٹائمز اور ٹائم میگزین سمیت مغربی اخبارات و جرائد میں رپورٹیں چھپیں تو وفاقی حکومت نے نواب امیر محمد خان کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا۔ پھر یہ کمیشن اور اس کی رپورٹ (اگر کوئی تھی) تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گئے۔ تقسیم کے بعد کراچی کی تاریخ میں یہ پہلا مسلح فساد تھا جس نے نسلی رخ اختیار کیا۔ اس کے اثرات کراچی آج تک بھگت رہا ہے۔

انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے بعد جب ملک میں بے چینی پھیلی تو حزبِ اختلاف نے حکمران خاندان پر اقربا پروری کے الزامات لگانے شروع کئے۔ گوہر ایوب خان اور ان کے سسر جنرل ریٹائرڈ حبیب اللہ خٹک کا نام بھی یونیورسل انشورنس کمپنی اور گندھارا انڈسٹریز کے حوالے سے اچھلا۔ حالانکہ ایوب خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایوانِ صدر میں آنے والے اپنے رشتے داروں کو چائے بھی اپنی جیب سے پلاتے ہیں اور یہ پیسے مہینے کے آخر میں ان کی تنخواہ سے کٹ جاتے ہیں۔

مگر جب انسان کا وقت اچھا نہ چل رہا ہو تو ہر الزام چپک جاتا ہے۔ ایوب خان کے زوال کے بعد گوہر ایوب خان نے بھی سیاسی خاموشی اختیار کی۔ انیس سو چوہتر میں انھوں نے اصغر خان کی تحریکِ استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ انیس سو ستتر میں پہلی بار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ بعد ازاں وہ پانچ بار مختلف ادوار میں رکنِ قومی اسمبلی رہے۔ اس میں انیس سو پچاسی کی غیر جماعتی اسمبلی بھی شامل تھی۔

جب جونیجو حکومت کی مئی انیس سو اٹھاسی میں برطرفی اور پھر ضیا الحق کی مرگِ ناگہانی کے بعد مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو آپ نے میاں نواز شریف کے دھڑے کا ساتھ دیا۔ میاں صاحب کی پہلی وزارتِ عظمی کے دوران آپ (چار نومبر انیس سو نوے تا سترہ اکتوبر انیس سو ترانوے) قومی اسمبلی کے سپیکر رہے۔ میاں صاحب کی دوسری مدتِ اقتدار میں آپ وزیرِ خارجہ (پچیس فروری انیس سو ستانوے تا سات اگست انیس سو اٹھانوے) اور پرویز مشرف کی تختہ پلٹ کارروائی تک وزیرِ پانی و بجلی کے فرائض نبھاتے رہے۔

نواز شریف، گوہر ایوب خان
،جونیجو حکومت کی برطرفی اور پھر ضیا الحق کی مرگِ ناگہانی کے بعد آپ نے میاں نواز شریف کے دھڑے کا ساتھ دیا۔ بعد ازاں جب ہوا کا رُخ بدلا تو ان کے بیٹے عمر ایوب اور ان کے بھائی شوکت ایوب کے صاحبزادگان پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے

اگرچہ افغانستان میں طالبان کی پیدائش اور انھیں افغان مجاہدین کے مقابلے میں آگے بڑھانے میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے وزیرِ داخلہ نصیر اللہ بابر اور آئی ایس آئی کا نام لیا جاتا ہے۔ مگر طالبان کی پہلی حکومت کو سفارتی درجہ دینے کا فیصلہ وزیرِ خارجہ گوہر ایوب خان کے دور میں ہوا۔

حالانکہ اس وقت شمالی افغانستان کے کچھ صوبے شمالی اتحاد کے قبضے میں تھے۔ مگر پچیس مئی انیس سو ستانوے کو پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا جس نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ تسلیم کیا۔ اس کے اگلے روز سعودی عرب اور پھر چار روز بعد متحدہ عرب امارات نے بھی تسلیم کر لیا۔

گوہر ایوب خان نے اس موقع پر بی بی سی اردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ طالبان کا اس وقت نوے فیصد افغانستان پر قبضہ ہے لہذا منطق کے مطابق وہی افغانستان کی حکومت ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ انشا اللہ کچھ ہفتوں میں پورا افغانستان ان کے ہاتھ میں ہو گا۔

’انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا جواب نہ دیا تو لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے‘

گوہر ایوب کی وزارتِ خارجہ کے دوران ہی پاکستان نے اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کو ایٹمی دھماکے بھی کیے۔ اپنی یادداشتوں میں اس فیصلے تک پہنچنے کا احوال انھوں نے کچھ یوں بیان کیا۔

’جب گیارہ مئی کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو اگلے روز کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا۔ اجلاس میں چوہدری نثار علی خان نے پاکستان کی جانب سے جوابی جوہری تجربے کی مخالفت کی۔ سرتاج عزیز، مشاہد حسین اور بیگم عابدہ حسین کے بھی یہی خیالات تھے۔ میری رائے یہ تھی کہ اگر ہم نے بھارت کا جواب نہ دیا تو لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔ اگلے روز کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں بری فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے کہا کہ ہماری تیاری مکمل ہے لیکن فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔ طے پایا کہ اس معاملے میں حزبِ اختلاف کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔‘

’دو روز بعد پھر ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ جوہری دھماکے کے حق میں نہیں ہیں۔ جب میں نے دوبارہ جوہری تجربے کے حق میں بات کی تو وزیرِاعظم کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا انھوں نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا کہ میں اس بارے میں سب کی رائے سننا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد وزیرِاعظم کے پرنسپل سکریٹری سعید مہدی اور مشیر انور زاہد تک سب ہی نے دھماکے کی وکالت کی۔ وزیرِاعظم کو جیسے ہی صورتحال کی نزاکت کا اندازہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ میری باتوں کا غلط مطلب نہ لیا جائے ہم دھماکہ کریں گے۔‘

گوہر ایوب
،اگرچہ افغانستان میں طالبان کی پیدائش اور انھیں افغان مجاہدین کے مقابلے میں آگے بڑھانے میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کا نام لیا جاتا ہے مگر طالبان کی پہلی حکومت کو سفارتی درجہ دینے کا فیصلہ وزیرِ خارجہ گوہر ایوب خان کے دور میں ہوا

کارگل آپریشن کی بریفنگ

وزیرِاعظم کو کارگل آپریشن شروع ہونے سے پہلے بریف کیا گیا۔ پہلی میٹنگ میں جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے علاوہ جنرل ریٹائرڈ مجید ملک، سرتاج عزیز، چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین، راجہ ظفر الحق اور سکریٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان موجود تھے۔

جبکہ دوسری میٹنگ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئی جس میں بہت کم فوجی افسر شریک تھے۔ حتی کہ فضائیہ اور نیوی کے سربراہوں کو بھی نہیں بلایا گیا۔

’دس اگست انیس سو ننانوے کو میں نے پانی و بجلی کے وزیر کے طور پر وزیرِاعظم سے ملاقات کی۔ گفتگو کے آخر میں ان کی آنکھوں میں سیدھا دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو کارگل آپریشن کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ ایسی بات نہیں انھیں اس بارے میں دو دفعہ بریفنگ دی گئی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت جانے والی ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا اللہ مالک ہے۔ آٹھ روز بعد میں نے ایک اور ملاقات میں انھیں پھر کہا کہ حکومت کی برطرفی ناگزیر ہے اور انھیں وہی لوگ گرفتار کریں گے جو اس وقت ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔‘

اگرچہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو حکومت کی برطرفی تک گوہر ایوب مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدر تھے لیکن دو ہزار ایک میں جب کچھ مسلم لیگیوں نے میاں محمد اظہر کی قیادت میں مسلم لیگ ق کے نام سے ایک علیحدہ دھڑا بنایا تو آپ اس کا حصہ بن گئے۔ مگر دو ہزار دو میں گریجویشن کی شرط کے سبب انتخابات میں حصہ نہ لے پائے اور آپ کی جگہ آپ کے صاحبزادے عمر ایوب خان نے پُر کی۔ وہ شوکت عزیز کابینہ میں وزیر رہے۔

دو ہزار بارہ میں میاں صاحب سے مفاہمت کے بعد دونوں باپ بیٹے مسلم لیگ ق ترک کر کے مسلم لیگ نواز کا حصہ بن گئے۔ مگر گوہر ایوب خان دو ہزار دس کی ہزارہ صوبہ تحریک اور صوبہ سرحد کا نام بدلنے کے خلاف پرتشدد تحریک میں حصہ لینے کے بعد عملی سیاست میں فعال نہیں رہے۔

ہوا کا رُخ بدلا تو ان کے بیٹے عمر ایوب اور ان کے بھائی شوکت ایوب کے صاحبزادگان پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے اور وفاقی و صوبائی وزارتیں پائیں۔ اس وقت عمر ایوب پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔

گوہر ایوب سیاست سے بظاہر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خبروں میں رہے۔ مثلاً مئی دو ہزار سات میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ انیس سو پینسٹھ میں ایک انڈین فوجی افسر مانک شا نے بیس ہزار روپے کے عوض کچھ فوجی راز پاکستان کو فروخت کیے۔

کچھ دن ہنگامہ ضرور ہوا پھر سب چانت ہو گیا۔ (مانک شا بعد ازاں فیلڈ مارشل بنے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں بنیادی عسکری کردار ادا کیا)۔

گوہر ایوب خان کی وفات سے پاکستانی سیاست ایک رنگا رنگ کردار سے خالی ہو گئی۔ وہ ان سیاست دانوں میں شامل تھے جنھیں پڑھنے لکھنے سے شغف رہا۔

انھوں نے تین کتابیں لکھیں جن میں ایک کتاب بطور شکاری ان کے تجربات پر محیط ہے: ’شکار ان دی ڈیز گون بائی‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں