2008 ءکے انتخابات ہو گئے تو ان کے نتائج کی بدولت نو برس تک ہمارے مائی باپ رہے جنرل مشرف استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ مجھ سادہ لوح نے اس کی وجہ سے فرض کر لیا کہ وطن عزیز بالآخر ”شاہراہ جمہوریت“ پر گامزن ہو گیا ہے۔ نئی پارلیمان کے قیام کے چند ہی ماہ بعد مگر جنرل مشرف کے برطرف کیے چیف جسٹس افتخا رچودھری کو بحال کرنا پڑا۔ چیف جسٹس کے منصب پر لوٹنے کے بعد موصوف نے ازخود نوٹس والے اختیارات کی بدولت خود کو وہ دیدہ ور ثابت کرنا شروع کر دیا جو بقول اقبال ”نرگس“ کو ہزاروں برس انتظار میں رلاتا ہے۔ ریاست کے نام نہاد تین ستونوں کے مابین مگر چودھری صاحب کی دیدہ وری کی بدولت توازن برقرار نہ رہ پایا۔ عدلیہ نے بتدریج پارلیمان کو ”چور اور لٹیروں“ کی کمین گاہیں ثابت کر دیا۔
یاد رہے کہ منتخب اداروں کی ا جتماعی ساکھ کو ان دنوں عدلیہ کی جانب سے نہایت بے دردی سے تباہ وبرباد کیا جا رہا تھا جب ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسندوں کا ایک گروہ مصر تھا کہ مغرب کی متعارف کردہ جمہوریت ”فاسد“ ہے۔ اسے تباہ کرنے کے بعد طالبان کے بیان کردہ ”اسلام“ کو نافذ کرنا ہو گا۔ ہماری ریاست کے خلاف طاقت ور ترین ادارے انتہا پسندوں کے ہاتھوں طویل عرصے تک ”یرغمالی“ رہے تھے۔ وہ مگر ریاست کی رٹ بالآخر بحال کرنے پر مجبور ہو گئے۔
انتہا پسندی کے خلاف برپا آپریشنوں کے دوران ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن سازوں“ کی اکثریت ”طالبانی سوچ“ پر سوال اٹھانے کے بجائے سیاستدانوں کو بدعنوان ثابت کرنے میں مصروف رہی۔ وسیع تر تناظر میں صحافیوں کی اکثریت افتخار چودھری کے لئے اقدامات سے متاثر ہو کر ”جمہوری نظام“ کی اس شکل کو ”نقش کہن“ ثابت کرنے میں مصروف رہی جو ہمارے ہاں تحریری صورت میں دیے آئین نے 1973 ءمیں متعارف کروائی تھی۔ دریں اثناءکرشمہ ساز شخصیت کے مالک عمران خان بھی اکتوبر 2011 ءمیں مینارِ پاکستان تلے ہوئے ایک جلسے کے ذریعے ”تبدیلی“ کا سونامی برپا کرنے کی مہم پر چل نکلے۔ ضرورت سے زیادہ متحرک عدلیہ، مذہبی انتہا پسندوں کی پھیلائی دہشت اور سونامی کی تمنا نے ہمیں مسلسل اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ 2013 ءکا انتخاب ماحول کو معمول بنانے میں ناکام رہا۔ اس کے نتیجے میں بھی ہمیں دھرنے ہی ملے اور بالآخر وہ ماحول جہاں ایک آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ”جانے کی باتیں نہ کرو“ کی فریاد کرنا پڑی۔ انہیں مگر برادر ملک سعودی عرب نے ”مسلم امہ کے فوجی اتحاد“ کی سربراہی کے لئے اپنے ہاں بلوالیا۔ ان کی جگہ قمر جاوید باجوہ تشریف لائے جو عمران خان کے ساتھ ”سیم پیج“ پر یکجا ہونے کو بے چین تھے اور 2018
”سیم پیج“ کی بدولت باجوہ صاحب اور عمران خان تو یک جان دوقالب ہو گئے مگر ہمارا سیاسی نظام اپنی شناخت کھوبیٹھا۔ یہ جمہوری رہا نہ آمرانہ۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی رہا۔ اس کی بدولت جو ”اچھی خبریں“ آتیں ان کا کریڈٹ ”سیم پیج“ کا ہر مکین لینے کو بے تاب رہتا۔ ناکامیوں کی ذمہ داری لینے کو البتہ کوئی تیار نہ ہوتا۔ 2017 ءسے البتہ مسلم لیگ (نون) نے ہمیں امید دلانا شروع کردی کہ وہ ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کے ساتھ پاکستان کو شاہراہ جمہوریت پر واپس کھینچ لائے گی۔ عمران مخالف جماعتوں نے اس ضمن میں اس کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا۔ بلند وبانگ وعدوں کے باوجود مگر نواز شریف صاحب کو جیل سے نکال کر علاج کے نام پر لندن بھجوادیا گیا۔ وہ لندن تشریف لے گئے تو ان کی جماعت نے قمر جاوید باجوہ کو بطور آرمی چیف مزید تین برس تک اس منصب پر برقرار رکھنے کو جائز قرار دینے والے قانون کی حمایت کا فیصلہ کر لیا۔
باجوہ صاحب کی میعادِ ملازمت میں اضافے والے قانون کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے 12 منٹ کی تاریخی مدت میں ”متفقہ“ منظوری کے بعد مجھ جیسے سادہ لوح افراد کو یہ جان لینا چاہیے تھا کہ ہمارے تمام سیاستدان باہمی اختلافات بھلاکر ”اسی زلف“ کے اسیر ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے دیرینہ اورد ن بدن گمبھیر ہوتے مسائل کا ان کے پاس کوئی حل موجود نہیں ہے۔ وہ اس ضمن میں ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کی ”اجتماعی دانش“ سے رہ نمائی کے طلب گار ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا ا جتماعی بانجھ پن دس سے زیادہ ا±ن قوانین کی ”متفقہ“ اور برق رفتار منظوری سے مزید عیاں ہو گیا جو پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی منفی فہرست سے نکالنے کے لئے پارلیمان نے نہیں بلکہ ریاست کے طاقت ور ترین ادارے نے تیار کیے تھے۔
عوام کے بجائے ریاستی اداروں کی بالادستی تسلیم کرنے کے بعد ہماری سیاسی جماعتوں کے درمیان اصل مقابلہ خود کو ریاست کا ”بہتر مددگار“ ثابت کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ (نون) فی الوقت اس تناظر میں بازی لیتی نظر آ رہی ہے۔ اسی باعث مسلم لیگ (نون) کے قائد نے اپنے برادر اصغر اور دخترسمیت کوئٹہ میں دو دن گزارے ہیں۔ بلوچستان کے نام نہاد الیکٹ ایبلز کی متاثر کن تعداد ان کی جماعت میں شامل ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ ان کی اکثریت ہی نے 2017 میں ان کی جماعت کو بلوچستان سے فارغ کرنے کے بعد اسے ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھی بے اثر بنا دیا تھا۔ سادہ لوح صحافیوں کی کماحقہ تعداد ”باپ“ کے ہاتھوں مسلم لیگ (نون) کے خلاف ہوئے سلوک کے خلاف اپنا سینہ جلاتے ہوئے نوکریوں کو خطرے میں ڈالتی رہی۔ مسلم لیگ (نون) اور ”باپ“ مگر اب ٹچ بٹنوں کی جوڑی کی طرح باہم مل چکے ہیں۔ وطن عزیز میں اب وہی ہو گا جو ”ا±ن“ کا حسن کرشمہ ساز چاہے گا۔ دل جلانے سے لہٰذا ہرسوچنے سمجھنے والے کو گریز اختیار کرنا ہو گا۔
بشکریہ نوائے وقت۔