معاف کیجئے لیکن ہم زندہ نہیں بلکہ باؤلی قوم ہیں۔ ذاتی معاملات میں ہم دماغ سے لیکن قومی معاملات میں جذبات اور تعصبات سے کام لیتے ہیں۔
ذاتی زندگی ہم مفاہمت اور زمینی حقائق کے مطابق گزارتے ہیں لیکن قومی معاملات میں ممولے کو شہباز سے لڑانے کا درس دیتے ہیں۔ ہم جھوٹے ہیں لیکن لیڈروں سے سچ کی توقع کرتے ہیں۔
کم و بیش اس قوم کا ہر فرد مفاد پرست ہے لیکن توقع لگائے بیٹھا ہے کہ ہمارے لیڈر قوم پرست بن جائیں۔
خود بڑھک باز ہیں لیکن توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ قیادت سنجیدہ اور مثبت عمل کرنیوالی ملے۔ خود کام چور ہیں لیکن محنتی قیادت کے متمنی ہیں۔ الغرض جھوٹ، فریب، دھوکہ، خودپسندی، بہتان طرازی، غیبت، چوری، ملاوٹ، کام چوری، بزدلی اور جہالت میں یہ قوم نمبرون ہے لیکن اسکا ہر فرد امید لگائے بیٹھا ہے کہ اسکی قیادت دیانتدار، باصلاحیت، قربانی دینے والی اور قوم کے لئے بے لوث کام کرنیوالی ہو، جو کبھی نہیں ہوسکتا۔
جس طرح شیشم کے درخت پر آم نہیں لگ سکتے، اسی طرح خراب قوم کی صفوں سے اچھی قیادت نہیں ابھرسکتی۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے کہ قوم سے قیادت جنم لیتی ہے بعض اوقات سدھری ہوئی قیادت قوم کو بھی سدھار دیتی ہے ۔ جیسے کہ نیلسن مینڈیلا نے کیا لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی نیلسن مینڈیلا ہے اور نہ طیب اردوان۔
ہماری قیادت نے قسم کھائی ہے کہ ماضی سے سبق نہیں لینا۔ یقین نہ آئے تو تازہ ترین صورتحال ملاحظہ کیجئے۔
عمران خان کو قوم نے بہت محبت دی لیکن دوران اقتدار انہوں نے وہی غلطیاں دہرائیں جو زرداری صاحب کرتے رہے اور اب وہ اسی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جو نوے کی دہائی میں یا پھر 2018ء میں اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرکے نواز شریف نے کی۔
انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ طیب اردوان ہیں اور نہ انکی پارٹی، اردوان کی پارٹی لیکن اسٹیبلشمنٹ سے تنازع مول لے لیا۔
عمران خان بوٹ کو عزت دو کے نعرے کیساتھ لیڈر اور حکمران بنے تھے لیکن آج انہوں نے نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کو اپنا لیا ہے، یوں دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے کہ انکا انجام بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کا ہوا اور انہیں تب معافی ملے گی جب وہ ووٹ کو عزت دو کی بجائے بوٹ کو عزت دو کے بیانئے پر آجائیں۔
میاں نواز شریف کے کردار کو ملاحظہ کیجئے۔ وہ ہمیشہ بوٹ کو عزت دیکر اقتدار میں آتے ہیں لیکن مقتدر بننے کے بعد طیب اردوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انکی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کیساتھ کبھی اقتدار میں نہیں آئے۔
عوامی قوت کو اپنانے اور اپنی جماعت کے اندر جمہوریت لاکر مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی بجائے وہ بوٹ کو عزت دیکر اقتدار میں آتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرکے طیب اردوان بننے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ایوان اقتدار سے باہر نکال کر جیل یا بیرون ملک پہنچا دیا جاتا ہے۔
افسوس کہ میاں نواز شریف نے بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں لیا اور اب ایک بار پھر وہ ووٹ کو عزت دو کے بجائے بوٹ کو عزت دو کے بیانئے کے ساتھ اقتدار میں آنے کی غلطی دہرا رہے ہیں۔
زرداری صاحب بھی غلطیاں دہرانے کے حوالے سے انتہائی مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں۔ وہ بیک وقت ووٹ کو عزت دو اور بوٹ کو عزت دو کے بیانیے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور چالاکی سے کام لیتے ہیں۔ کبھی انکی یہ چالاکی کام کر جاتی ہے اور کبھی الٹا پڑ جاتی ہے۔
اب بھی وہ بیک وقت ووٹ کو عزت دو اور بوٹ کو عزت دو کی پالیسیاں ایک ساتھ چلا رہے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تابعداری بھی کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ بلیک میل بھی کررہے ہیں۔ گویا انہوں نے بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
یہی معاملہ باپ پارٹی، ایم کیوایم، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی اور بڑی پارٹیوں سے نتھی ہوکر اقتدار میں آنے کی کوشش کرتی ہیں اور اب کی بار ان میں سے بھی ہر ایک، یہی غلطی دہرا رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں لے گی ۔ اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ سیاست سے لاتعلق نہیں ہوتی۔ کبھی نواز شریف کو مسیحا کے طور پر قوم کے سروں پر مسلط کردیتی ہے اور کبھی عمران خان کو۔ پھر جب وہ سچ مچ حکمران بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ ان کی چھٹی کرانے میں لگ جاتی ہے ۔ کبھی نواز شریف، کبھی عمران خان اور کبھی کسی اور کو پہلے لیڈر اور پھر حکمران بنانے کے اس عمل میں اسٹیبلشمنٹ عدلیہ، میڈیا اور دیگر ریاستی اداروں کو استعمال یا بے وقار کرکے اپنے آپ کو بھی متنازعہ بنالیتی ہے لیکن ماشا اللّٰہ ہر تجربے کی ناکامی کے باوجود وہ اپنی اس روش سے باز نہیں آئی۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ تائب ہوکر سیاست، عدالت اور صحافت کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور خود اپنے اصل کام یعنی ملکی دفاع پر توجہ دے لیکن اب کی بار بھی وہ ماضی کی طرح ایک بار پھر دخیل ہے اور ہائبرڈ نظام کو نہ صرف برقرار رکھاجارہا ہے بلکہ اسے مزید توانا بنایا جارہا ہے۔
گویا سب کرداروں کا کردار نہیں بدلا۔ نعرے بدلے ہونگے۔ طریق کار بدلا ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر فریق اپنی جگہ ماضی کی غلطیوں کو دہرا رہا ہے۔
ظلم کی انتہا دیکھئے کہ ہم نے غلطیاں بھی نئی ایجاد نہیں کیں بلکہ ہر کردار اسی سابقہ غلطی کو دہرا رہا ہے اور پھر توقع لگالیتے ہیں کہ نتیجہ مختلف نکلے گا۔
معاف کیجئے لیکن ہم زندہ نہیں بلکہ باؤلی قوم ہیں اور جب تک قوم اپنے آپ کو نہیں بدلے گی ،قیادت بدلے گی اور نہ یہ ملک بدلے گا۔ باریاں بدلتی رہیں گی لیکن حکمران ایسے ہی رہیں گے۔ جب تک قوم جذبات، تعصبات یا پھر ذاتی مفادات کی بنیاد پر لیڈروں کی حمایت یا مخالفت کرتی رہے گی، ہمارے ملک کے حکمران ایسے ہی لوگ رہیں گے۔ جلسے جلوس بھی ہوں گے اور انتخابات کے ڈرامے بھی لیکن لیڈر سدھریں گے اور نہ ملک سدھرے گا۔
انتخابات سے غیرمعمولی توقعات وابستہ کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
اگلے انتخابات صرف اس حوالے سے مختلف ہوں گے کہ جو کچھ عمران خان 2018 کے انتخابات میں کررہے تھے، وہ اب میاں نواز شریف کریں گے اور جو میاں نواز شریف نے اس وقت کیا تھا، وہ اب عمران خان کر رہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے سابقہ الیکشن میں جو سلوک نواز شریف کیساتھ کیا تھا، وہ اب کی بار عمران خان کے ساتھ کرے گی اور عمران خان پر جو عنایتیں کی تھیں ، وہ اب نواز شریف پر کرے گی۔ یوں جلسے جلوس بھی ہوں گے۔ سیاسی ہلہ گلہ بھی ہوگا۔
لیکن جس طرح 2018ء کے الیکشن میں نتیجہ پہلے سے معلوم تھا، اسی طرح 2024ء کے انتخابات کا نتیجہ بھی پہلے سے معلوم ہے بلکہ نتیجہ تو کیا، پھر انتخابات کے نتیجے کا جو نتیجہ نکلے گا، اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے مزاج کی روشنی میں اس کی بھی پہلے سے پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔