ادھا پہلوان ٹھنڈی کھوئی والا!

ان دنوں ایک دفعہ پھر ادھا پہلوان ٹھنڈی کھوئی والا ایکسائیٹڈ ہےاور انتخابات کے دنوں میں اس کا یہ جوش وخروش دیدنی ہوتا ہے۔ اس کی دودھ، لسی کی دکان پر علاقے کے امیدوار اور اس کے کا رکن دن کے مختلف اوقات میں اکٹھے ہوتے ہیں، لسی پیتے ہیں اور اسمبلی کا امیدوار اس کا بل ادا کرتا ہے۔ان میں سب سے زیادہ ’’سیاسی‘‘ خود ادھا پہلوان ٹھنڈی کھوئی والا ہے وہ تمام قسم کے سیاسی کارکنوں کو انتخاب جیتنے کے ’’گُر‘‘ بھی بتاتا ہے اور سیاسی تجزیے بھی پیش کرتا ہے۔ گزشتہ روز میں اس کی دکان پر گیا تو ادھا پہلوان گڑوی میں لسی ’’رڑک‘‘ رہا تھا مگر اس کا دھیان سامنے بنچوں پر بیٹھے گاہگوں کی باتوں کی طرف تھا ،اس نے ان میں سے ایک کو مخاطب کیا اور کہا ’بلے تم ایسے نہ خوش ہو جایا کرو ابھی تو کوئی پسندفائنل نہیں ہوئی اور تم بڑھکیں لگانے لگ گئے ہو۔‘بلے نے پوچھا ’کیا تمہارے پاس اس حوالے سے کوئی اطلاع ہے، ادھے پہلوان نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’پڑ گئی نا میری ضرورت اب سنو ’’ذرائع کے مطابق‘‘ آٹھ فروری کو انتخابات یقیناً ہو رہے ہیں ‘‘ بلے نے یہ سنا تو بولا ’یہ تم بریکنگ نیوز دے رہے ہو کسے نہیں پتہ اب ایسا ہونا یقینی ہے‘ اس بار ادھا پہلوان ہنسا اور کہنے لگا’ تم مجھے پاگل سمجھتے ہو بریکنگ نیوز یہ ہے کہ اول تو تمہارے امیدوار کو پارٹی کا ٹکٹ نہیں مل رہا اور دوسرے میرے ذاتی ذرائع کے مطابق اگر ٹکٹ مل بھی گیا تو وہ کامیاب نہیں ہو گا اس کی زبان سے ذاتی ذرائع کے الفاظ سن کر بلا ہنسنا شروع ہو گیا‘ جس پر ادھا پہلوان غصے میں آ گیا اور کہا ’’مجھے تم کیا سمجھتے ہو مجھے سارے معاملے کی ’’ایچی بیچی ‘‘ کا پتہ ہے تمہارا امیدوار ٹکٹ الاٹ کرنے والوں ہی کے ترلے منتیں نہیں کر رہا بلکہ ان کے گھریلو ملازمین ،ارد گرد کی پرچون کی دکانوں پر بیٹھے گاہکوں کا انتظار کرنے والوں کے ساتھ بھی دوستیاں گانٹھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اسے میری طرف سے بتا دو وہ اپنا وقت ضائع نہ کرے یہ سن کر بلے نے کہا ’’یار تم تواس میدان کے پرانے کھلاڑی ہو تم سیاست لڑا کر مشورہ دو کہ اسے ٹکٹ کے حصول کے لئے کیا کرنا چاہئے ؟ یہ سن کر ادھے پہلوان کے چہرے پر غوروفکر کے آثار پیدا ہوئے، اس کے بعدوہ اپنی چوکی سے اتر کر بلے کے ساتھ بنچ پر بیٹھ گیا اور راز داری کے انداز میں اس کے کان کےساتھ منہ لگا کر بولا ’’ایک چیز میرے ذہن میں آئی ہے مگر کسی کو بتانا نہیں ‘‘ بلے نے ایکسائیٹڈ ہو کر پوچھا وہ کیا ‘‘ ادھے پہلوان نے کہا کہ میں اس کو ٹکٹ دلا سکتا ہوں مگر اس کی ایک شرط ہے ‘‘بلے نے پوچھا وہ کیا ’’ادھے پہلوان نے کہا ’’معمولی سی شرط ہے وہ یہ کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران اس نے ورکروں اور خود جو پیڑوں والی لسی کے بڑے گلاس پئے اور پلائے ہیں ان کا بل ادا کر دے ‘‘اس پر بلے نے قہقہہ لگایا اور کہا پہلوان یہ بات دل سے نکال دو اس نے تو علاقے کے سارے دکانداروں کے وہ پیسے بھی ادا نہیں کئے جو سابقہ الیکشن سے اس کے ذمے تھے۔

اس دفعہ میں نے پہلوان سے کہا ’’یار کسی اور کو علم ہو نہ ہو مگر میںتو جانتا ہوں کہ تمہارے تعلقات کتنے بڑے بڑے لوگوں سے ہیں خود تم نے مجھے بتایا تھا کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں اسلامی ملکوں کے جو سربراہ پاکستان آئے تھے وہ سب تمہاری دکان سےلسی پی کر گئے تھے حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ پہلوان ہم تمہیں صرف ملنے اور صلاح مشورہ کرنے آئے ہیں مگر تم نے کہا میں آپ کو ایسے نہیں جانے دوں گا ،لسی پیئے بغیر آپ یہاں سے جا نہیں سکیں گے۔ انہیں تمہاری لسی اتنی مزے کی لگی کہ وہ کئی گلاس شاپروں میں بھر کر اپنے ساتھ لے گئے تم نے یہ بھی بتایا تھا کہ آج بھی گاہے گاہے ان سب کا فون آتا ہے اور میرا حال احوال پوچھتے ہیں ۔میری یہ گفتگو سن کر پہلوان خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوگیا اور کہا ’’قاشمی شاب، یہ سب اللہ کا فضل ہے کبھی غرور نہیں کیا ۔اس بچارے پہلوان کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ان سربراہوں میں سے لگ بھگ سارے سربراہ مملکت قتل کر دیئے گئے تھے، میں نے اسے اس وقت بھی نہیں بتایا کہ مجھے خدشہ تھا کہ وہ کہیں ان کی تعزیت کیلئے ان مرحومین کے پاکستانی سفارتخانوں میں جانے کا ارادہ نہ باندھ لے۔

میں نے ادھے پہلوان سے فروری میں ہونے والے انتخابات کا رزلٹ پیشگی معلوم کرنے کی کوشش کی ،جس کے جواب میں ادھے پہلوان نے صرف دو باتیں کیں ایک تو تمام پارٹیوں کے نام بالکل صحیح بتائے اور آخر میں ایک بہت پتے کی بات صرف ایک جملے میں ادا کی اور کہا ’’وہی ہو گا جو اللہ کو منظور ہو گا‘‘

میں نے دانستہ اس عارفانہ بات کی تفصیل نہیں پوچھی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں