’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘

ہمارے ہاں سیاست میں نہایت دلچسپ اصطلاحات مستعمل رہی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ مثال کے طور پرآج کل عام انتخابات کے حوالے سے ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا بہت چرچہ ہے۔ بظاہر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ لیکن ــ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا حقیقی مفہوم کچھ اور ہے۔ آپ دیکھئے، اس وقت تحریک انصاف کے بعد پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت ہے جو ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دراصل پیپلز پارٹی کی قیادت کویقین تھا کہ اب انہیں ’سلیکٹ‘ کیا جائے گا اور لاڈلے کا پروٹوکول دیا جائے گا۔ اس یقین کا سبب ماضی قریب میں پیش کی گئی خدمات ہیں۔ یادش بخیر، آصف زرداری صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرائی، سینیٹ انتخابات کے دوران سیاسی بندوبست کا حصہ بنے، صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا۔ اس تناظر میں انہیں توقع تھی کہ جب سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو گا تو بلوچستان عوامی پارٹی پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کر دی جائے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ پلیٹ میاں نواز شریف لے اُڑے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی میں اکثریت نواز شریف مخالف ووٹرز کی ہے اور نا مہرباں موسموں میں حالات سے تنگ یہ موسمی پرندے ان کی منڈیر پر آبیٹھیں گے۔ یہ سوچ بھی خیال خام ثابت ہوئی۔ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک نے اپنا دھڑا بنا لیا، پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے ایک نئی پناہ گاہ وجود میں آ گئی۔ پیپلز پارٹی کے خواب تو یہ تھے کہ وفاق میں حکومت بنائی جائے مگر اچانک یہ حقیقت سامنے آگئی کہ سندھ میں اقتدار بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) نے ایم کیو ایم سے اتحاد کر کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے تو دوسری طرف سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو صوبائی صدر تعینات کر کے یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ کراچی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کیخلاف دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ملے گی۔ ان حالات میں ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا واویلا نہ ہو تو اور کیا ہو؟ ویسے جب کوئی سیاسی جماعت ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا گلہ کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سب کو موقع دیا جائے، دراصل یہ التماس کی جا رہی ہوتی ہے کہ ہم بھی تو نظر التفات کے منتظر ہیں، اس بار ہمیں موقع دیں، آپ کو مایوس نہیں کرینگے۔

یوں تو ہمیں دھوکے کھانے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ مگر ان سیاسی اصطلاحات سے فریب مت کھائیں کیونکہ انکے لفظی معنی کچھ اور ہوتے ہیں جبکہ حقیقی مفہوم کچھ اور۔ مثال کے طور پر جب سیاستدان کہتے ہیں کہ فوج سیاست سے دور رہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اقتدار میں ہیں اور ہماری حکومت کو صرف آپ سے خطرہ ہو سکتا ہے لہٰذا اپنے کام سے کام رکھیں۔ اسی طرح جب کوئی یہ کہتا ہے کہ فوج اپنی قومی اور آئینی ذمہ داریاں نبھائے تو وہ دراصل یہ عرضی پیش کر رہا ہوتا ہے کہ ہم اپوزیشن میں ہیں، ہمارے پاس اقتدار حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں، براہِ کرم ہماری مدد کریں۔ اسی طرح جب یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ فوج ’’نیوٹرل‘‘ رہے تو اس کی تشریح یہ ہے کہ فی الحال حالات کنٹرول میں ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم آپ کو بلائیں گے۔ آپ اگرسائنس کے طالبعلم رہے ہیں تو کیمسٹری میں Neutral Substanceکی یہ تعریف پڑھی ہو گی کہ ’’بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ شے، کو غیر جانبدار مادہ کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے فزکس پڑھی ہے تو یقیناً یہ جانتے ہوں گے کہ حرکی توانائی کے اعتبار سے نیوٹرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی قسم کی مثبت یا منفی توانائی خرچ نہیں ہو رہی۔ طبعیات کی رو سے دو قسم کے الیکٹرک چارج ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرا منفی مگر غیر جانبدار عنصر (نیوٹرل پارٹیکل) وہ ہوتا ہے جس کا کوئی الیکٹرک چارج نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے کیمسٹری یا فزکس نہیں پڑھی تو بھی کوئی بات نہیں، گاڑی تو چلائی ہو گی یا ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔ نیوٹرل گیئر کا مطلب ہوتا ہے کہ گاڑی رُک گئی ہے اب یہ نہ آگے جائے گی نہ پیچھے۔ ہاں گاڑی کو دھکا لگا کر آگے، پیچھے، دائیں بائیں لڑھکایا جا سکتا ہے لیکن گاڑی کا انجن حرکت میں نہیں آئے گا۔ حیاتیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو انسان ہوں یا حیوان انہیں نر اور مادہ کی حیثیت سے تقسیم کیا جاتا ہے اور جو نیوٹرل ہوتے ہیں وہ بھی دونوں طرح کے میلانات رکھنے کے باوجود کسی ایک طرف زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں۔گویا مطلق غیر جانبداری کا قطعاً کوئی تصور نہیں۔

نوبیل انعام یافتہ اسکالر اور بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹونے غیر جانبداریت کے حوالے سے کہا تھا کہ اگر کوئی ہاتھی کسی چوہے کی دُم پر پائوں رکھ دے اور آپ کہیں کہ بھائی ہم تو نیوٹرل ہیں تو اس چوہے کو آپ کا نیوٹرل ہونا پسند نہیں آئیگا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اور ان کے ہمنوا بھی کل تک نیوٹرل کو جانور قرار دینے والے اب یہ تقاضا کرتے پھرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہے۔ الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہو، سب کو ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ دستیاب ہو، انتخابات منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوں۔ ان مطالبات کے حوالے سے تو تمام سیاسی جماعتوں میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں البتہ سب کی اپنی لغت ہے اور ان باتوں کی من مانی تشریح وتعبیر بیان کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر تحریک انصاف کی طرف سے ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کے مطالبے کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کیا جائے تو اس کا بقول احمد فراز مطلب ہے’’محبت وہی انداز پرانے مانگے‘‘۔ یعنی ویسا ہی ماحول، ویسی ہی سہولت کاری، ویسا ہی سایہ عاطفیت مہیا کیا جائے جو 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے دستیاب تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں