وطن عزیز بدترین سیاسی خلفشار کی گرفت میں، ایک سوال چار سُو،’’اگر‘‘ الیکشن ہو گئے تو اگلا طرزِ حکومت کیسا ہوگا؟ عمران خان دور جیسا جہاں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحہ پر جبکہ اختیارات و اقتدار 60 فیصد اسٹیبلشمنٹ کے پاس یا شہباز شریف حکومت جیسا، جہاں 80 فیصد اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھا یا پھر آج کی نگران حکومت ’’سیاہ و سپید‘‘ کی کُلی مالک اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وثوق سے کہتا ہوں کہ جنرل عاصم منیر ذمہ دار نہیں ہیں۔ عمران خان کا ادارے پر خود کش حملہ ہی حالات کو اس نہج پر لے آیا ہے کہ جنرل عاصم منیر کیلئے’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘۔
بالفرض محال اگر الیکشن ہو بھی گئے تو اسٹیبلشمنٹ اب تک ’’کار جہاں کو اس حد تک دراز‘‘ کر چُکی ہے کہ اختیارات و اقتدار کمبل بن کر چمٹے رہیں گے۔ اس بات کا قوی امکان موجود کہ مستقبل کی نئی حقیقتیں ہمیں انتخابات سے کوسوں دور نہ لے جائیں؟
پچھلی سات دہائیوں سے، کئی وطنی سیاستدان مختلف موقعوں پر دُشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے، کچھ کے طرزِ سیاست نے ملک کو نقصان بھی پہنچایا ۔ یہ بات حتمی کہ جس کسی نے قومی سیاست کے کوچہ میں قدم رنجا فرمایا، لبالب محب ِ وطن تھا۔ اکثر موقعوں پر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ ضرور رہا، پاکستان سے کوئی بیر نہ تھا ۔ گو مشرقی پاکستان ایک خونریز جنگ کے بعد علیحدہ ہوا، حقیقت سے انکار نہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ سے لیکر وجودِ پاکستان، بنگالی مسلمانوں کی انتھک محنت کا ہی ثمر تھا ۔50 کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ جوں ہی مضبوط ہوئی ، اپنے تسلط کو مستحکم کرنے کی ٹھانی۔ کچھ سیاستدان کھلونا بنے اور کچھ معتوب ٹھہرے، راندہ ِ درگاہ بنا دیئے گئے ۔
16 اکتوبر1951ء لیاقت علی خان کی شہادت ایک سازش اور المیہ،امابعد مشرقی پاکستان سے ایک انتہائی معتبر شخصیت گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بن گئے۔ ڈیڑھ سال کے اندر گورنر جنرل غلام محمد، جنرل اسکندر مرزا اور ایوب خان نے تضحیک آمیز طریقہ سے جمہوری وزیراعظم کو برطرف کر دیا۔ وطنی سیاسی عدم استحکام اور خلفشار کا یہی نقطہ آغازتھا۔ تب سے محمد علی بوگرا سے لیکر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ تک 30وزیراعظم ، ایک نام بتا دیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی، منشا یا مدد کے بغیر مسندِ اقتدار پر بیٹھا ہو۔ ستم ظریفی، جس وزیراعظم سے اسٹیبلشمنٹ کی ناچاقی ہوئی، زور زبردستی اُسے اقتدار سے نکال باہر کیا ۔ الزامات تین ہی ،’’نااہل، کرپٹ اور بھارت کے معاملے میں نرم‘‘ہے ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، عمران خان جھوٹ کے کسب میں کمال حاصل کر چُکے تھے۔تکرار کیساتھ نواز شریف پر الزام لگاتے تھے کہ نواز شریف کی کبھی کسی آرمی چیف کیساتھ نہیں بنی۔ نقارخانے میں ایک طوطی کی آوازبھی تھی کہ’’آج تک کس آرمی چیف کی کس وزیراعظم سے بن پائی ہے؟‘‘ دروغ بَر گردن راوی، 2019 ء میں پلڈاٹ (PILDAT ) کا ایک وفد جنرل باجوہ صاحب کے ظہرانے سے مستفید ہوا۔ عمران خان صاحب کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جنرل صاحب اپنے آپکو افلاطون، خلیل جبران کے پائے کا فلاسفر مفکر سمجھ چُکے تھے ۔
حسب معمول ملکی سیاستدانوں میں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے تھے۔ روانی میں ’’نواز شریف کی حب الوطنی کوسراہا جبکہ زرداری صاحب کی حب الوطنی پر سنجیدہ سوالات اُٹھا دیئے‘‘۔ 75 سالہ وطنی تاریخ ایسی’’لنگر گپوں اور شگوفوں‘‘ سے بھری پڑی ہے۔ ریاست کا ایک ولن شیخ مجیب الرحمان بھی ، یقیناً اُنکی آخری چند سال کی سیاست کا دفاع ناممکن ہے کہ بھارت کے ہاتھ کھلونا بنا۔ مگر دو دہائیوں کی سیاست میں اُسکی حب الوطنی پر انگلی اُٹھانا صریحاً زیادتی ہوگی۔ 1965 ء کے صدارتی انتخابات میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ بنا۔ کبھی اُن عوامل پر بھی غورہوگاکہ شیخ مجیب الرحمان محب وطن کا غدار کیونکر بنا ؟
سیاسی عدم استحکام کا بنظر غائرجائزہ لیں تو ایک اضافی عنصر وطنی انتشار کی آگ جو شعلہ جوالہ بن چُکا ہے۔ آج قوم (SADIST) بن چُکی ہے ، نفسیاتی ذہنی خلل میں مبتلا ہے ۔ 24 کروڑ 60 لاکھ نفوس میں عدم برداشت اور بدلہ میں تجاوز اُنکا اوڑھنا بچھونا بن چُکا ہے۔ مخالف کو اذیت میں دیکھنے کے اس درجہ متمنی کہ قرآن، آئین و قانون سے ماورا سزائیں دینے میں ہر وقت کمر بستہ۔ سرعام پھانسیوں کا مطالبہ، جسمانی اذیت، عقوبت خانے آج بھی من کو بھاتے ہیں ۔مملکت دو قوانین کے سائے میں پروان چڑھی۔ ایک انگریز سے مستعار لیا ہوا اور دوسرا اللہ اور رسول ﷺکا دیا ہوا ۔ دونوں میں تجاوز کی اجازت نہیں ۔ ماورائے آئین و قانون یا ماورائے شریعت سزا دینا، ایک نفسیاتی بیماری (SADIST MINDSET )، ہمارے اندر سرایت کر چُکی ہے۔ پوری قوم انفرادی لحاظ اور اداراتی طور پر ایذا رساں بن کر مطمئن ہے ۔ اپنے ہی ہم وطنوں کیخلاف طاقتوروں کا موثر ہتھیار بھی یہی ہے۔ ایسے ہتھکنڈے بالآخر عوام الناس میں بے اطمینانی اور ریاست سے نفرت کو چار چاند لگاتے ہیں۔ سیاسی افراط و تفریط ، انتشارکیساتھ ساتھ عدم برداشت اور ایذا رسانی میں ہم ہر حد ٹاپ چُکے ہیں۔
7 دہائیوں سے جاری اسٹیبلشمنٹ اور سیاست کی پُر تشدد سیاسی کشمکش ،مملکت کی چُولیں ہلا چُکی ہے۔ صاحب فکر و نظر تھک چُکے ہیں۔ ایک لڑائی تھمتی نہیں کہ مزید بھیانک لڑائی کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ اہل وطن پھر سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ ادارے اور عوام ہر دور میں باہمی بد اعتمادی کا شکار رہے ہیں ، دشمنی کا لامتناہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ البتہ عوامی نوعیت، ماہیت لیڈر کیساتھ بدلتی رہتی ہے۔ سیاست کو ہمیشہ اپنی عوامی طاقت اورائے عامہ پر گھمنڈ اور بھروسہ رہا ہے۔ جبکہ فریق ثانی کی طاقت ریاست، اسباب اور مشینیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔ ہمیشہ سے عقیدہ ایک ہی، جب بھی عوامی خلفشارحدیں ٹاپ جائے تو دونوں فریقوں کی تباہی مقدر رہتی ہے ۔ معاملہ ’’مٹی پاؤ‘‘ یا ’’دھاک بٹھانے‘‘ کا نہیں ہے۔ تدبیر، فہم و فراست معاملہ فہمی چاہئے کہ مملکت منہ کے بل اوندھی پڑی ہے۔ بظاہر جو تدبیریں مستحکم، وقت آنے پر اُلٹی پڑ سکتی ہیں۔ 75سال سے جاری بلی اور چوہے کا کھیل، ایک بار پھر خطرناک مرحلے میں ہے۔ سیاست بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ، آج چوتھی بڑی لڑائی لڑی جا ری ہے ، اس سے پہلے تین لڑائیاں لڑی جا چکی ہیں ۔ ایک میں اسٹیبلشمنٹ ہاری، دوسری میں سیاست کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ، تیسری میں بظاہر اسٹیبلشمنٹ جیتی حقیقتاً سیاست کی وقتی جاں بخشی نے اُسکو فائدہ پہنچایا۔ میرا خدشہ ،چوتھی لڑائی میں دونوں فریق ہارنے کو ہیں۔ آج دونوں فریق یہ سمجھ ر ہے ہیں کہ حتمی جیت اُسکی ہے ۔ میرا ڈر، موجودہ لڑائی نے دونوں فریقوں کو گھائل رکھنا ہے۔ بچپن کی نظم ، ’’ایک تھا تیتر ایک تھا بٹیر ، لڑنے میں تھے دونوں شیر‘‘، اللہ نہ کرے کہ ایک اپنی چونچ اور دوسر ااپنی دُم سے محروم ہو جائے ۔اگر ایسا ہوا تو مملکت بڑے سانحے سے دوچار رہے گی، رحم ! اےپروردگار رحم ۔