امریکہ کا بھرپور مسخرے پن کے ساتھ صدر رہا ڈونلڈ ٹرمپ ویسے بہت کائیاں ہے۔ پنجابی محاورے والا بھولا تو ہے ”مگر اتنا بھی نہیں“ ۔ امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ یادریں دولت اس کے رویے سے سخت پریشان ہے۔ وہ سنجیدگی سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کا اختیار کردہ رویہ دنیا کے واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کے طویل المدت مفادات کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی باعث اقتدار سے فراغت کے بعد ٹرمپ پر کڑی نگاہ رکھی گئی۔ طویل نگرانی کی بدولت بالآخر دریافت ہوا کہ اس نے امریکی شہر فلوریڈا میں بنائے ایک گالف کلب اور اس کے ساتھ بنائے محل نما مکان کے تہہ خانے میں چند ایسی دستاویز ات چھپارکھی ہیں جو امریکی جاسوسی اداروں نے اس کے روبرورکھی تھیں۔ وہ انہیں محض ایک بار دیکھنے کا حقدارتھا۔ انہیں دیکھنے کے بعد مذکورہ دستاویزات مگر ٹرمپ نے جاسوسی اداروں کو واپس نہیں بھیجیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ایوان صدر چھوڑتے ہوئے وہ ان میں سے چند حساس دستاویزات کو اپنے ہمراہ لے گیا۔ جاسوسی اداروں کو ان کی گم شدگی کی وجہ سے تشویش لاحق ہوئی تو وہ لاعلمی کا ڈھونگ رچاتا رہا۔ جاسوسی اداروں نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ کئی مہینوں تک پھیلی نگرانی کے بعد اس کے فلوریڈا والے گھر سے مطلوبہ دستاویزات قانونی انداز میں برآمد کرلی گئیں۔ اب امریکی ریاست اس کے خلاف خفیہ دستاویزات کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی بنیاد پر ایک سنگین مقدمہ چلانے کی تیاری کر رہی ہے۔ امریکی ریاست کے دائمی اداروں کو اعتماد ہے کہ ان کی کاوشیں ٹرمپ کو سنگین سزا دلوانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
امریکہ کا تحریری آئین مگر ریاست کی خفیہ قرار پائی دستاویزات کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے ملی سنگین سز ا کے باوجود ”مجرم“ ہوئے شخص کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار نہیں دیتا۔ امریکہ کے کئی مقبول کالم نگاروں نے بلکہ طے کر رکھا ہے کہ فلوریڈا سے بازیاب ہوئی دستاویزات کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024 کے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔ اب ایسے مزاحیہ کالم لکھے جا رہے ہیں جن میں تصور کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کا صدر منتخب ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود ”صدارتی فرائض“ جیل میں بیٹھ کر سرانجام دینے کو مجبور ہے۔ ایسے چسکے بھرے کالموں میں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا رہا کہ صدر ٹرمپ بطور امریکی صدر اگر جیل میں قید ہوتو اس کے ہاں آئے کسی غیر ملکی سربراہ کو اس سے ملنے کے لئے جیل جانا پڑے گا۔ غیر ملکی اور وی آئی پی مہمانوں کا ”پروٹوکول“ اس امر کا تقاضا کرے گا کہ وہ جیل جہاں ٹرمپ بطور امریکی صدر مقید ہووہاں غیر ملکی وی آئی پی مہمانوں سے ملاقات کے لئے ایک خصوصی عمارت تعمیر کی جائے۔
ٹرمپ کے ذکر نے مجھے بھی پھکڑپن میں الجہادیا ہے۔ تمہید ضرورت سے زیادہ لمبی ہو گئی۔ کالم کا آغاز ہوتے ہی مجھے بیان کر دینا چاہیے تھا کہ میں اس ویڈیو کو زیر بحث لانا چاہ رہا ہوں جو منگل کی صبح وائرل ہو چکی ہے۔ وائرل ہوئی کلپ ٹرمپ کے 2 نومبر کے روز ہوئے ایک خطاب میں ہمارے عمران خان کے بارے میں ادا کردہ کلمات پر مبنی ہے۔
سچی بات یہ بھی ہے کہ مذکور کلپ میں نے جب پہلی بار دیکھی تو اعتبار نہیں آیا۔ تصور کر لیا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دور میں کسی نے ٹرمپ کی ”آواز“ چند کلمات ادا کرنے کے لئے استعمال کرلی ہے۔ تھوڑی تحقیق کو لہٰذا مجبور ہوا اور بالآخر تصدیق فراہم ہو گئی کہ ٹرمپ نے 2 نومبر کے روز امریکی ریاست ٹیکساس کے اہم ترین شہر ہوسٹن میں واقعتاً عمران خان کے بارے میں وہ الفاظ ادا کیے تھے جو وائرل ہوئی کلپ میں سنائی دیے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ کی اکثریت نے بھی وہ کلپ دیکھ لی ہے۔ اس سے اب تک لاعلم رہے قارئین کی آسانی کے لئے مگر بیان کرنا ہو گا کہ ٹرمپ ان دنوں امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لینے کی بھرپور تیاری میں مصروف ہے۔ شہر شہر جاکر وہ اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ کی ری پبلکن پارٹی مذکورہ انتخاب میں اسے اپنا امیدوار نامزد کرے۔ مختلف سروے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اس کی مہم کامیاب جا رہی ہے اور اس کے صدارتی ا میدوار بننے کے امکانات 50 فی صد سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ ہوسٹن امریکہ کی قدامت پرست ریاست مانی جاتی ہے۔ بش خاندان کا تعلق بھی اس ریاست سے رہا ہے۔ یہ تیل کے کاروبار کا مرکز بھی ہے۔ یہاں کی گوری اشرافیہ تارکین وطن سے شدید نفرت کرتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں بھارتی اور پاکستانی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ہوسٹن جیسے شہر میں ایسے کئی محلے ہیں جہاں کے بازاروں میں گھوم رہے ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کراچی کے بزنس روڈ یا ناظم آباد کے کسی محلے سے گزررہے ہیں۔ یہاں نہاری کی دیگوں سمیت دکانوں کے علاوہ پان اور سگریٹ کے ایسے کھوکھے بھی ہیں جہاں پان منہ میں ڈال کرہاتھ صاف کرنے کو لال کپڑا بھی لٹکا ہوتا ہے۔ چند کھوکھوں پر میں نے سلگتی رسی بھی دیکھی جو سگریٹ جلانے کے کام آتی ہے۔
مجھے گماں ہے کہ غالباً ٹیکساس میں آباد پاکستانیوں کا جی خوش کرنے کے لئے ٹرمپ نے عمران خان کا ذکر کیا۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ وہا ں بھارتی بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ٹرمپ نے ان پر توجہ کیوں نہیں دی۔ یہ سوال ذہن میں آیا کہ ”لابنگ“ کی اہمیت یاد آ گئی اور یہ حقیقت بھی کہ ٹیکساس میں چند پاکستانی ڈاکٹر عمران خان کے جنونی حامی ہیں اور ری پبلکن اشرافیہ کے اپنی بے پناہ دولت کی وجہ سے بہت قریب بھی۔ ان میں سے چند کو یقیناً ٹرمپ تک رسائی بھی میسر ہوگی۔ ”لابنگ“ کے لئے درکار تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ کو اس امر پر قائل کر لیا ہو گا کہ اپنے خطاب کے دوران وہ عمران خا ن کا ذکر بھی چھیڑدے تاکہ ریاست پاکستان کو ”خبر“ ہو جائے کہ ان کے قائد کی ”پہنچ“ کہاں تک ہے۔
عمران خان کے دیوانے مگر یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ ٹرمپ کی زبان سے ادا ہوا ”کلمہ خیر“ بسا اوقات جادو ٹونے والے عمل کی طرح ”الٹا“ بھی پڑ سکتا تھا۔ عمران خان کے ساتھ بھی ٹرمپ کے ہاتھوں یہ ہوا۔ ٹرمپ کو یہ شیخی بگھارنے کی علت لاحق ہے کہ امریکہ کی سلامتی اور دفاع کے معاملات کو اس سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا۔ اس تناظر میں اکثر وہ اپنے جرنیلوں کا حقارت سے مذاق بھی اڑاتا رہتا ہے۔ ہوسٹن جیسے قدامت پرست شہر میں اسے امریکہ کے قومی سلامتی امور کے بارے میں اپنے کردار کو بڑھاچڑھا کرپیش کرنا درکار تھا۔ اس کے حصول کے لئے اس نے ایران کے ایک شہرہ آفاق کمانڈر سلیمانی کا ذکر چھیڑدیا۔ وہ عراق، لبنان اور شام میں امریکی افواج کے لئے سخت مشکلات کا سبب ٹھہرادیا جاتا تھا۔ بالآخر امریکی ریاست نے مذکورہ اساطیری جنرل کو میزائل کے ذریعے ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تین جنوری 2020 کو یہ مقصد بغداد میں حاصل کر لیا گیا۔
2نومبر 2023 ءکے دن ہوسٹن میں ہوئے خطاب کے دوران ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ سلیمانی کی ہلاکت کے چند دن بعد ان دنوں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اسے فون کیا۔ ”کامیاب“ آپریشن کی مبارک دی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ سلیمانی کی نشان زد (Target) ہلاکت کے بعد وہ ایک ہفتے تک اپنے گھر سے باہرنہیں نکلے۔ کیوں؟ اس کی وضاحت ٹرمپ نے فراہم نہیں کی۔
ٹرمپ کا یہ دعویٰ اگرچہ قطعاً جھوٹ اور بے بنیاد تھا کہ عمران خان 3 جنوری 2020 کے روز سلیمانی کے خلاف ہوئے آپریشن کے بعد اپنے گھر تک محدود ہو گئے تھے۔ حقیقت جب کہ یہ رہی کہ موصوف نے اس واقعہ کے عین ایک دن بعد یعنی 4 جنوری 2020 کے دن میانوالی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ ٹرمپ کے بیان کردہ سفید جھوٹ کے باوجود اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہمسایے ایران میں ٹرمپ کے خطاب کو سنجیدگی سے لیا جائے گا اور وہ یہ جان کر ہرگز خوش نہیں ہو گا کہ ان کے ایک اساطیری کمانڈر کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت نے عمران خان کو ازخود خوشی فراہم کی تھی۔
بشکریہ نوائے وقت۔