معاملات ۔۔۔(1)

ہمارا اجتماعی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی تنزلی کی وجوہات پر غور کرنے یا انہیں درست کرنے سے زیادہ پدرم سلطان بود کے مقولے کے اسیر ہیں اور آج جبکہ ہم دنیا میں کسی بھی سلسلے میں باعزت مقام پر فائز نہیں ہیں ہمیں اپنی بڑائی‘ طاقت‘ ماضی کی کہانیاں سنانے سے فرصت نہیں ہے۔ اگر یہ عاجز کسی کالم میں مغرب سے کسی بات کا تقابلی جائزہ پیش کرے تو بعض قاری باقاعدہ اس بات کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں کہ لکھاری کچھ ایسا لکھے اور وہ اس پر احساسِ کمتری‘ مغرب سے متاثرہ اور خدا جانے کیا کیا الزام لگا دیں۔ بعض قاری تو اس عاجز کی ذاتیات اور گھر تک کو رگیدنے سے باز نہیں آتے حالانکہ میرے لکھنے کا مقصد مغرب کا جھنڈا بلند کرنا نہیں بلکہ تقابلی جائزے سے قوم میں شعور پیدا کرنا اور اچھے کاموں میں تقلید کے جذبے کو بیدار کرنا ہوتا ہے‘ مگر ان لوگوں کا کیا کیا جائے جن کی سوئی ایک ہی جگہ پر پھنسی ہوئی ہے اور وہ خود کو ہر قسم کی غلطی سے مبرا ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں جو انہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیتا۔ جب آپ کو اپنی غلطی‘ خامی اور کوتاہی کا احساس ہی نہ ہو تو بھلا اس میں درستی کہاں آئے گی؟
چلیں مغرب کی مادی ترقی کو تو چھوڑیں‘ فی زمانہ جو اخلاقی معاملات ہیں اگر ان میں سے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے عورت اور مرد کے اختلاط کو نکال دیں جو میرے خیال میں اجتماعی سے زیادہ ذاتی معاملات میں آتا ہے تو ایسے تمام اخلاقی پیمانے جو کسی معاشرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ ان میں ہم نچلی ترین سطح پر کھڑے ہیں۔ مغرب سے یکسر نا آشنا اور جنہوں نے کبھی مغربی فلموں سے بڑھ کر اس معاشرے کا کبھی سنجیدگی سے جائزہ بھی نہیں لیا اپنے اخلاقی تصورات کی خود ساختہ دنیا میں خود کو اقوامِ عالم میں سب سے بلند تر اخلاقی درجے پر بٹھا دیتے ہیں اور اپنے ان خود ساختہ اخلاقی تصورات کو مغرب کی ساری مادی ترقی سے کہیں افضل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا ہوا مغرب نے دنیاوی معاملات میں ترقی کر لی لیکن ہمارے پاس اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں جن سے مغرب یکسر محروم ہے اور ہم اس دنیاوی ترقی کے مقابلے میں اپنی ان اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مطمئن اور خوش ہیں۔
یہ عاجز تو کبھی کبھار مختصر سے وقت کیلئے کبھی مشاعروں کے سلسلے میں اور کبھی اپنے بچوں سے ملنے کیلئے ادھر کا رخ کرتا ہے اور اس پر اسے اپنے بعض ہمہ وقت ناراض اور چابک بردار قارئین سے کڑوی کسیلی سننی پڑتی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر ان ناراض ناقدین کو مغرب میں رہنے کیلئے ہلکی سی امید ہی دلا دی جائے تو یہ تمام لوگ اگلے ہی روز اپنا بوریا بستر اٹھا کر اس ملک کے سفارت خانے کے باہر ڈیرہ لگا لیں اور اس وقت تک بیٹھے رہیں جب تک ان کے پاسپورٹ پر ویزے کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔ گرین کارڈ یا مستقل رہائش کی سہولت مل جائے تو کیا ہی کہنے۔ ان میں سے ایک بندہ بھی اخلاقی اقدار سے شرابور اس ملک میں ایک لمحہ بھی رہنا گوارہ نہ کرے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس عاجز کے دل میں تو جوانی میں کہیں اور جانے کا خیال نہیں آیا اور اب تو ویسے بھی کہیں اور جانے کا وقت قریب آ لگا ہے۔ ایسے لوگ جن کے پاس انتہائی ناقص اور ناکافی تجربہ اور صلاحیت ہوتی ہے لیکن انہیں یہ گمان ہو کہ وہ اعلیٰ تجربے اور صلاحیت کے مالک ہیں تو خوش فہمی پر مبنی تخمینے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے پاس در حقیقت اتنا علم ہے ہی نہیں۔
ہمارے ہاں اگر اعلیٰ اخلاقیات کا اعلیٰ ترین نمونہ دیکھنا ہو تو اس کیلئے رمضان کے مہینے میں اس پوری قوم کی حرکتیں ہی کافی سے زیادہ ہیں۔ اس مہینے میں کہیں ہمارا دین‘ ہماری تعلیمات اور اخلاقی اقدار ہمارا کچھ بگاڑتی دکھائی نہیں دیتیں۔ بلکہ ہم اس مقدس مہینے میں سال بھر کے ثواب کے بجائے سال بھر کا منافع کمانے میں لگ جاتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ ادھر یورپ‘ برطانیہ‘ امریکہ اور آسٹریلیا میں بعض سٹورز جو یقینا کافروں اور دوزخیوں کے ہوتے میں مسلمانوں کیلئے ماہ رمضان میں اپنے سٹورز میں ایک طرف حلال اشیا عام دنوں کی نسبت کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں کسی چیز کی قیمت بڑھنے کا امکان ہو تو وہ مارکیٹ میں شارٹ ہو جاتی ہے تاوقتیکہ اس کی قیمت بڑھنے کا سرکاری اعلان نہ ہو جائے اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہو تو دوسرا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے‘ جب ملک میں پٹرول وغیرہ کی قیمت میں غیر معمولی اضافے کی خبر اڑے تو پٹرول پمپ والے اگلے روز قیمت بڑھنے کے بعد بیچنے کے لالچ میں پٹرول کی فروخت بند کر دیتے ہیں یا تیس لٹر کا مطالبہ کرنے والے کو دس لٹرپر ٹرخا دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پٹرول بچ جائے جسے وہ اگلے روز قیمت بڑھنے کے بعد فروخت کر سکیں۔ جب پٹرول کی قیمت کم ہونے کا امکان ہو تو پٹرول پمپ مالکان اس سے قبل ہی اپنا پٹرول بیچ باچ کر اپنے ٹینک خالی کر لیتے ہیں۔ گزشتہ ماہ جب پٹرول کی قیمت میں چالیس روپے کی کمی ہوئی تو اگلے روز ملتان شہر کے اکثر پٹرول پمپس پر پٹرول ہی نہیں تھا۔ یہ ہماری اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں۔ مفت والی اخلاقی اقدار کا بھاشن تو ہمارے ہاں بدرجہ اتم میسر ہے لیکن ہر ایسی اخلاقی قدر جس میں روپے پیسے کا عمل دخل ہو وہاں ہماری اخلاقی اقدار کا جس طرح جنازہ نکلتا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ لیکن ہم پھر بھی دنیا کی اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی حامل قوم ہیں۔
دینی طور پر ہم پر دو ذمہ داریاں عائد ہیں۔ پہلی حقوق اللہ کی ادائیگی اور دوسری حقوق العباد کی ادائیگی۔ ہمارے مولوی حضرات‘ ہمارا مذہبی طبقہ اور واعظ صاحبان کا سارا زورِ بیان حقوق اللہ کی جانب ہوتا ہے۔ خدانخواستہ میرا مطلب ہرگز نہیں کہ ان فرائض کی اہمیت کسی طرح سے کمتر ہے تاہم یہ وہ فراض ہیں جن کو وہ رحمان اور رحیم اپنے کرم اور فضل کے طفیل کمی بیشی کی صورت میں معاف بھی کر دے گا کہ وہ قادر ِمطلق ہے اور اپنے معاملات میں کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہے۔ ہمارا سارا زور اسی جانب ہے جبکہ دوسرے معاملے میں ہم نرے کورے ہیں اور ہمارے واعظانِ کرام اور خطیب صاحبان کا سارا زور بیان حقوق اللہ پر ختم ہو جاتا ہے ‘حقوق العباد کی شاید ہی کوئی بات کرتا ہو۔ ہماری ساری توجہ ان معاملات پر ہے جو اس رحیم کی کریمانہ صوابدید پر مبنی ہیں اور جن معاملات کو اس منصف نے مظلوم اور متاثرہ فریق کی رضامندی سے مشروط کر رکھا ہے اس کی ہمیں رتی برابر پروا نہیں۔
اور ہاں! سب سے اہم چیز معاملات ہیں۔ ایمانداری‘ ایفائے عہد‘ امانت داری‘ سچ بولنا‘غیبت سے بچنا‘ صفائی کا خیال رکھنا‘ ہمسائے کے حقوق ادا کرنا‘ مستحق رشتہ داروں کا خیال کرنا‘ نرمی سے گفتگو کرنا‘ دوسروں کو برے القابات سے نہ پکارنا اور اسی قسم کے روز مرہ کے سینکڑوں معاملات ہماری ترجیحات میں کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ صفائی کا معاملہ ہو تو مسجد تک کا ٹوائلٹ اس قابل نہیں کہ اس میں جانے کے بعد پاکیزگی برقرار رہ سکے۔ ادھر مغرب میں یہ عالم ہے کہ شاپنگ مال یا ٹرین سٹیشن کا باتھ روم بھی ایسا صاف شفاف کہ بندہ حیران ہوئے بغیر نہیں رہتا اور اس میں نوے فیصد حصہ اسے استعمال کرنے والوں کا ہے جو اپنے معاشرتی فرائض سے آگاہ ہیں۔ ہماری ننانوے فیصد فٹ پاتھوں پر دکانداروں نے قبضہ کر رکھا ہے جن کی اکثریت حاجی ہے جبکہ سید نا معاذ بن انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ فلاں غزوہ میں اللہ کے نبی ﷺ کے ہمرکاب تھے۔ لوگوں نے منزلوں پر پڑاؤ کرنے اور خیمے لگاتے ہوئے تنگی پیدا کر دی حتیٰ کہ راستہ بھی نہ چھوڑا۔ نبی کریم ﷺ نے اعلان کرنے والا ایک شخص بھیجا جس نے لوگوں میں اعلان کیا۔ ”ایسے شخص کا کوئی جہاد نہیں جو خیمہ لگانے میں تنگی پیدا کرے یا راستہ کاٹے‘‘۔ (ابو داؤد 2629)(جاری)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں