محسن نقوی اسپیڈ!

شہباز شریف کی بطورِ وزیر اعلیٰ پنجاب کارکردگی ناقابل فراموش تھی وہ صبح جلدی بیدار ہو جاتے اور اپنے ساتھ پوری بیوروکریسی کی نیندیں بھی خراب کرتے تھے، مجھے یاد ہے ایک دفعہ شدید بارش اور طوفان نے سڑکوں کو تالاب بنا دیا اور درخت سڑکوں پر آن گرے مجھے اس روز علی الصبح کہیں جانا تھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ٹی وی چینلز جس خوفناک طوفان کی فوٹیج دکھا رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ سڑکوں پر نہریں بہہ رہی ہیں اور تناور درخت جڑ سے اکھڑ کر سڑکیں روکے بیٹھے ہیں مگر صبح چھ بجے میں ادھر سے گزرا تو دیکھا سڑکیں خشک تھیں اور درخت رستوں سے ہٹا دیئے گئے تھے، میں روزانہ انکے پنجاب کے مختلف شہروں کے دوروں کی خبریں پڑھتا اور پتہ چلتا کہ وہ صبح سے رات گئے تک پلک جھپکائے بغیر ان مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیںجو عوام کو درپیش ہیں،ایسے مواقع پر بیوروکریسی کا متعلقہ عملہ بھی ساتھ رہتا۔انہوں نے اپنے دور میں بہت بڑے بڑے منصوبے بھی متعین وقت میں پورے کئے اورنج ٹرین، میٹرو بس سروس،رنگ روڈ، فلائی اوور اللہ جانے کیا کیا کچھ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران پایہ تکمیل کوپہنچا، ان کی ایک بات تو بہت زیادہ حیران کرنے والی تھی وہ جب کبھی بیرون ملک سرکاری دورے پر جاتے تو جو صحافی ان کے ساتھ ہوتے ان کے جہاز کی ٹکٹ اور دوسرے اخراجات سرکار کے خزانے کی بجائے اپنی جیب سے ادا کرتے۔ایک اور بات میں نے نوٹ کی کہ وہاں کی حکومت کے عشائیے یا ظہرانے کے بعد شہباز شریف اگلے روز ان کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کرتے اور اس کے تمام اخراجات بھی خود برداشت کرتے۔ یہ ایک محنتی، سوجھ بوجھ اور قومی خزانے کو قوم کی امانت سمجھنے والا وزیر اعلیٰ تھا۔

ایسے باکمال وزیر اعلیٰ کے بعد میں آنے والوں کیلئے کارکردگی میں اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا اور آسان نہیں ہے خصوصاً چندمہینےکیلئے باگ ڈور سنبھالنے والی نگران حکومت کا وزیر اعلیٰ تو اتنے کم وقت میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ جب محسن نقوی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو مجھے تو علم تھا کہ سی این این پاکستان کا سابق مدارالمہام اور سٹی نیوز نیٹ ورک (جو سی این این کا مخفف ہے ) ایسی ایمپائر کھڑی کرنے والا یہ ’’نوجوان‘‘ قابل بھی ہے محنتی بھی ہے ،ملنسار بھی ہے سب کچھ ہے مگر اتنے بڑے صوبے کی وزارتِ عالیہ کا منصب شاید اس کیلئے بار گراں ہو گا ۔مگر آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ یہ ’’شہباز شریف اسپیڈ‘‘ کا پیروکار ہے ۔محسن نقوی بہت دردمند ہیں ،اس کی ایک مثال آگے چل کر دوں گا اور محنتی بلا کے ثابت ہوئے ہیں مختلف اداروں کے اچانک دورے کرتے ہیں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ چھاپہ مارتے ہیں اور اسکے نتیجے میں ساری غلاظت سامنے لے آتے ہیں وہ اس ادارے کے سربراہ سے کراس کوئیسچننگ سے معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں ہماری عدلیہ کے ایک بابا رحمتے ہوتے تھے جن کا اختیار اس طرح چھاپے مارنے کا تھا ہی نہیں مگر وہ ایسا کرتے اور کچھ پوچھے بغیر انٹ شنٹ بول کر واپس آجاتے ۔محسن نقوی بال کی کھال اتارتے ہیں معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور پھر ایسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔میں نے ابھی ان کی دردمندی کا حوالہ دیا تھا اور وہ یوں کہ موصوف چند روز قبل جیل کے دورے پر گئے ہمارا بابا رحمتے اگر ہوتا تو وہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی توہین کرکے واپس آجاتا مگر محسن قیدیوں کی بیرکوں میں گئے آئی جی پنجاب، جیل سپرنٹنڈنٹ اور غالباً ان کے سیکرٹری ان کےساتھ تھے انہوں نے ایک ایک قیدی سے پوچھا کہ وہ کس جرم میں قید ہے اس کا حال سنا اور پھر آئی جی پنجاب سے مشورہ کرکے اس کی دلجوئی کرتے۔مگر جس بات نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ان قیدیوں کے جرمانے جو وہ ادا کرکے باہر آسکتے تھے مگر ان میں اس کی سکت نہیں تھی ،اپنی جیب سے ادا کئے ۔اس طرح جوبیمارتھے ان کے ہر ممکن علاج کا حکم دیا اور کہا کہ یہ بالکل مفت ہوگا!

ان کے انکسار اور ملنساری کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دنوں میرے بیٹوں نے میری اور میری اہلیہ کی برتھ ڈے ایک ریستوران میں منائی جس میں شہر کے زعماء شریک ہوئے اچانک میں نے دیکھا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب ہال میں داخل ہوئے ان کے آنے کی بھی کوئی اطلاع نہیں تھی اور امید بھی نہیں تھی مگر وہ آئے ،بغیر سیکورٹی کے آئے اور بہت دیر تک بیٹھے رہےمگر اس کے بعد میری شامت آ گئی لوگوں نے سمجھا شائد ان کے ساتھ میرے بہت گہرے تعلقات ہیں چنانچہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے میرے پاس آنے لگے اور پھر مایوس جانے لگے کہ میرا ان سے رابطہ بھی کوئی نہیں تھا! ایک بات اور ، جب وہ سی این این سے وابستہ تھے اپنی ماڈل ٹائون کی کوٹھی میں گاہے گاہے بہت بڑی ضیافت کرتے تھے جس میں سیاست دانوں کے علاوہ ہر شعبہ زندگی کے سرکردہ لوگ شرکت کرتے تھے ۔یہاں سرکردہ کا لفظ لکھنا ضروری تھا کہ ان مہمانوں میں، میں بھی تو شامل ہوتا تھا۔وہاں بھی ان کا انکسار اور چھوٹے بڑے مہمانوں کی پذیرائی یکساں ہوتی تھی۔

یہی رویہ اور دل کی کشادگی ان کے نیوز چینلز کے عملے سے بھی ہے وہ ان کے گھروں میں جاتے ہیں ان سے ایسے ملتے ہیں جیسے وہ ان کے کولیگ اور دوست ہوں اور ہر سال منتخب افراد کو عمرے اور زیارتوں کیلئے بھیجتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں روزانہ دس ہزار افراد کے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔میں نے سنا ہے کہ عملے کے جو افراد نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کریں انہیں کار کی چابیاں بھی دیتے ہیں، واللہ ا علم بالصواب

اور اب آخر میں حرف مدعاسامنے لاتا ہوں اور وہ یہ کہ نگران حکومت کے اختتام کے بعد وہ گھر نہ بیٹھیں، عوام کے ساتھ انہیں میل ملاپ کا جو موقع ملا ہے اور ان کے مسائل سے آگاہی ہوئی ہے اور جس احسن طریقے سے حکومتی امور چلائے ہیں، اب اپنی ان صلاحیتوں کو آئندہ کیلئے بھی بروئے کار لائیں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ سیاست میں آئیں۔ اس کیلئے وہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی جائن کریں جو انکی دردمندی اور صلاحیت کے قائل ہو، یہ لمبا سفر ہے اور کھٹن بھی مگر آپ اور آپ ایسے دوسروں کو بھی یہ کام کرنا ہو گا سیاست میں آنے کا مقصد اقتدار کا حصول نہیں بلکہ پاکستان کو اس کی صحیح ڈگر پر چلانے کیلئے ہمیں ایسے بہت لوگوں کی ضرورت ہے جن کا مدعا اقتدار نہیں ،پاکستان کو خوبصورت بنانا ہو!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں