پاکستان، افغانستان اور غزہ

ایک دفعہ پھر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تلخی پیدا ہو چکی ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں 30ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی لیکن کچھ دنوں کے بعد اس مخالفت سے دستبردار ہو گیا۔ جب بھی ان دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو کچھ لوگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ دونوں کوایک دوسرے سے لڑا دیا جائے لیکن تمام ترسازشوں کے باوجود انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں لایا جا سکا۔یہ خاکسار کئی مرتبہ یاد دلا چکا ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا تھا۔اقبال سے محبت کرنے والا کوئی پاکستانی اپنے افغان بھائیوں سے نفرت نہیں کرسکتا۔علامہ اقبال کے کلام میں جگہ جگہ افغانوں اور جدید افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی سے محبت کا اظہار ملتا ہے۔ 1933ء میں علامہ اقبال افغانستان کے دورے پر گئے تو سب سے پہلے انہوں نے غزنی میں حکیم سنائی اور حضرت داتا گنج بخش ؒ(علی ہجویری) کے والد حضرت عثمان ہجویری ؒکے مزار پر حاضری دی بعد میں محمود غزنوی کے مزار پر گئے۔قندھار پہنچے تو احمد شاہ ابدالی کے مزار پر بھی حاضری دی ۔افغانستان کے حکمران ظاہر شاہ نے 1938ء میں علامہ اقبال کے مزار کی تعمیر کیلئے سرخ پتھر بھجوایا۔ اقبال کے کلام اور ان کے مزار کی دیواروں میں لگا سرخ پتھر افغانوں اور پاکستانیوں کو ہمیشہ ان دشمنوں سے خبردار کرتا رہے گا جو انہیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ظاہر شاہ کے دور میں دو واقعات نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو خراب کیا۔پہلا واقعہ اقوام متحدہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کی مخالفت تھا۔دوسرا واقعہ شمالی وزیرستان میں برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے قبائلی رہنما فقیر ایپی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش تھی۔فقیر ایپی برطانیہ کو اپنا دشمن سمجھتے تھے 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد پاکستانی فوج کا سربراہ ایک انگریز فوجی افسر تھا لہٰذا فقیر ایپی نے پاکستانی فوج کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔انہیں پاکستانی فوج کیخلاف لڑنے کیلئے فنڈز اور اسلحہ کابل میں بھارتی سفارتخانہ دیتا تھا۔ بھارتی حکومت کو یہ شکایت تھی کہ ایک افغان عالم دین ملا شور بازار کے حکم پر افغانستان اور پاکستان کے قبائلیوں نے ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کیخلاف لڑائی کیلئے لشکر کشی کی ۔جو لوگ آج پاکستان میں افغانوں پر تنقید کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اگر افغانستان کی حکمران اشرافیہ نے کسی وجہ سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی تو ملا شور بازار نے کابل میں بیٹھ کر کشمیری مسلمانوں کی حمایت بھی کی۔ پاکستانی حکومت نے فقیر ایپی کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے سب سے پہلے تو اپنی فوج کو برطانوی افسروں سے پاک کیا اور پھر مسجد اقصیٰ کے امام مفتی امین الحسینی کو پاکستان بلایا۔مفتی امین الحسینی 22مارچ 1951ء کو وانا گئے اور قبائل کی قیادت اور پاکستانی حکومت میں معاملات طے کرائے۔پھر وہ کابل بھی گئے اور ظاہر شاہ کو سمجھایا کہ پاکستان سے مت لڑو۔جب مفتی اعظم فلسطین کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان میں تعلقات بہتر ہوئے تو 16اکتوبر 1951ء کو ایک افغان سید اکبر کے ذریعے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کروادیا گیا۔سید اکبر کا تعلق برطانوی انٹیلی جینس سے تھا اور شائد اسی لئے اسے موقع واردات پر گرفتار کرنے کی بجائے ایک پولیس افسر قربان علی خان نے گولی مار دی ۔ادھر ظاہر شاہ کیخلاف سابقہ سوویت یونین کی سازشیں شروع ہو گئیں تو ظاہر شاہ کو یہ تجویز دی گئی کہ سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان اور افغانستان کو کنفیڈریشن بنالینی چاہئے جس کے تحت دونوں ممالک کی خودمختاری قائم رہے گی لیکن دفاع اور خارجہ پالیسی مشترکہ ہو گی۔ نیویارک ٹائمزنے 10اپریل 1954ء کو ایک سٹوری شائع کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے کنفیڈریشن کی ایک تجویز زیر غور ہے جس کا پاکستان کو یہ فائدہ ہو گا کہ کابل پشتونستان تحریک کی سرپرستی چھوڑ دے گا اور افغانستان کو یہ فائدہ ہو گا کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں پاکستان کی فوج افغانستان کا دفاع کریگی۔یہ تجویز آگے نہ بڑھ سکی اور دونوں ممالک میں غلط فہمیاں قائم رہیں تاہم 1965ء اور 1971ءکی پاک بھارت جنگ میں افغانستان نے پاکستان کے خلاف کوئی نیا محاذ نہ کھولا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حیات محمد خان شیر پائو کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی اور پھر آئی جی ایف سی میجر جنرل نصیر اللہ خان بابر نے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سمیت کئی باغی افغان رہنمائوں کو سردار دائود کی حکومت کیخلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ بھٹو نے اپنی کتاب’’ اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں لکھا ہے کہ جون 1976ء میں سردار دائود نے انہیں کابل بلایا اور اگست 1976ء میں وہ راولپنڈی آئے دونوں ممالک میں طے پایا کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرئیگااورپاکستان ولی خان سمیت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ان تمام رہنمائوں کو رہا کر دئیگا جن پر حیدرآباد سازش کیس کے تحت مقدمہ چل رہا تھا ۔دریں اثنا 1977ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ضیاء نے جلد بازی میں ڈیورنڈلائن کو مستقل سرحد تسلیم کرائے بغیر ہی نیپ کی قیادت کو رہا کرا دیا تاکہ انہیں بھٹو کیخلاف استعمال کیا جاسکے ۔بعدازاں بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور سردار دائود بھی قتل ہو گئے۔ افغانستان میں روسی فوج داخل ہوگئی تو جنرل ضیاء نے پاکستان میں پہلے سے موجود گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کو روسی فوج کیخلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے دور میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن فوجی ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ افغانوں کو عالمی طاقتوں کیلئے ایندھن بنانے کی کوشش کی۔ مشرف کا دور پاک افغان تعلقا ت کے حوالے سے بدترین دور تھا ۔ مشرف کی پالیسیوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا اور پاکستان میں خودکش حملے شروع ہوئے ۔

موجودہ نگران حکومت نے اکتوبر 2023ء میں غیر قانونی افغان مہاجرین کو صرف ایک ماہ کے اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا۔اس حکم نے پاکستان اور افغانستان میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ان افغانوں کو بھی خوب تنگ کیا جن کے پاس تمام دستاویزات موجود تھیں۔بظاہر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ مہاجرین میں موجود کچھ لوگ پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو بھارتی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں لیکن جس بھونڈے انداز میں صرف ایک ماہ کے اندر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی کوشش کی گئی اس نے دونوں ممالک کے مشترکہ دشمنوں کا کام آسان کیا اور وہ دونوں طرف اختلافات کی آگ پر مزید تیل ڈال رہے ہیں۔ پاکستان اورافغانستان کو ایک دوسرے کی خودمختاری اور آزادی کا تحفظ کرنا چاہئے کیونکہ دونوں کی سلامتی ایک دوسرے کی سلامتی سے مشروط ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں