خودکشی!

مولانا طارق جمیل کے فرزند کی المناک موت نے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا۔ سیکولر اور حتیٰ کہ مخالف فرقوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی ان سے اظہارِ ہمدردی کیا۔ بعد ازاں جب مولانا نے ایک شخص کے خواب میں عاصم جمیل کو رسالت مآبؐ کے ہمراہ دیکھنے اور بخشش کی بشارت سنائی تو معاملہ ایک اور رخ اختیار کر گیا۔ جنید جمشید مرحوم کی حادثاتی وفات پر بھی ایک شخص نے مولانا کو اپنے خواب کی بشارت بیان کی تھی ، جسے انہوں نے ٹی وی پر بیان کر دیا ۔ یہ کہ رسالت مآبؐ ایک مشترکہ دوست کے خواب میں آئے اور اس سے کہا : طارق جمیل کو بتا دینا کہ اس کا دوست ہم تک پہنچ گیا ہے۔

میرا فوکس بشارت نہیں بلکہ خودکشی ہے ۔ پچانوے فیصد کیسز میں کوئی بھی شخص پہلی دفعہ خودکشی کا خیال آنے پر فوراًاپنی جان نہیں لیتا۔ کافی عرصہ وہ مزاحمت کرتا ہے ۔ اہلِ خانہ سمیت زندگی میں بہت سی خوشیاں ہوتی ہیں‘انسان جن سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔جانداروں میں زندہ رہنے کی خواہش انتہائی شدید رکھی گئی ہے۔خوفناک بیماریوں سے دوچار لوگ بھی مرنا نہیں چاہتے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اس انتہائی تکلیف سے گزرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے؟

جواب یہ ہے: مسلسل ذہنی تکلیف جو موت سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ہرلمحہ وہ انسان کو موت سے بدتر تکلیف سے گزار رہی ہوتی ہے ۔ایک شخص جو پورا دن بیٹھا اپنے ہاتھ دھو رہا ہے۔وہ جانتا ہے کہ لوگ اسے پاگل سمجھ رہے ہیں‘ پھر بھی وہ ہاتھ دھونے پر مجبور ہے۔وہ سوچتا ہے کہ میں اپنے پیاروں پہ ایک مستقل بوجھ بن چکا ہوں ۔

ایک شخص جو ہرلمحہ ذہنی تکلیف سے گزر رہا ہے ،اسے ہر سانس کے ساتھ تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔ لوگ اسے کہتے ہیں کہ خدا کو یاد کرو‘ پریشانی نہ لیا کرو اور ورزش کرو‘وغیرہ وغیرہ۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر وہ بیس سال بھی ورزش کرتا رہے‘ تب بھی کلینکل ڈپریشن، علاج کے بغیر ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اس کے اندر اتنی طاقت ہی نہیں کہ عبادت کر سکے۔ ہاں وہ یہ کر سکتاہے کہ بے قرار ہو کر خدا کو اپنی تکلیف بتائے۔ خدا تو لازماً اس شخص کو جواب دیتا ہے‘ جو تکلیف میں اسے پکارتا ہے۔

ایک دفعہ میں ایک بائیس سالہ لڑکے سے ملا۔ اس کا باپ علاج کے بعد اسے واپس لے جا رہا تھا۔ اس نے کہا:تین ماہ پہلے یہ ہر وقت خودکشی کاارادہ ظاہر کرتا رہتا تھا ا اورمسلسل روتا رہتا۔ اب تو یہ ٹھیک ہو گیا ہے۔لڑکے کی آنکھوں میں زندہ رہنے کی خواہش تھی اور مستقبل کے منصوبے بھی۔اس احساس سے وہ شرمندہ نظر آرہا تھا کہ اسے نفسیاتی علاج سے گزرنا پڑا؛البتہ ٹھیک ہوجانے کی مسرت کہیں زیادہ تھی۔ ایک بہت بڑی تعداد کو علاج کی ضرورت ہے۔ ایسی ادویات اور ایسے پروسیجرز موجود ہیں‘ جو انہیں واپس زندگی کی طرف لا سکتے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ انگریزی ادویات کے توسائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں؟ اس پر آدمی قہقہہ ہی لگا سکتاہے ۔ آپ کا پیارا موت کے بالکل قریب ہے اور آپ سائیڈ افیکٹس کو رو رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ایسے کیسز میں جو نقصان ہو نا تھا‘ وہ پہلے ہی ہو چکا۔ اب اگر مریض واپس اپنے آپ سنبھالنے کے قابل ہی ہو جائے تو اسے غنیمت سمجھیے۔اب‘جتنی بھی ریکوری ہوتی ہے‘ اسے بونس ہی سمجھیے۔

جولوگ کلینکل ڈپریشن میں ذہنی تکلیف کی انتہا کو پہنچ چکے ہوتے ہیں ، شاید ان سے قلم اٹھ جاتا ہے ۔جیسا کہ ایک سو سالہ شخص پر جس کی یادداشت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہو ۔ کیا اس پر شریعت اسی طرح لاگو ہوتی ہوگی ، جس طرح عام انسان پر ؟

ایک درمیانی عمر کا بال بچے دار شخص فوراً جذباتی ہو کر خودکشی نہیں کرتا۔ کسی کسی پر البتہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب اس کی ذہنی تکلیف تمام حدود سے گزر جاتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب وہ واقعتاً خودکشی کر لیتا ہے ۔ اس وقت وہ انتہائی جذباتی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔

بعض لوگ کسی شخص کی طرف سے شدید تکلیف سے گزارے جانے پر بھی خودکشی کرتے ہیں ۔ ایساآدمی سوچتا ہے کہ اپنی جان لے کر میں اس شخص کے ضمیر پر ہمیشہ کیلئے ایک بوجھ بن جائوں گا؛حالانکہ جب زندگی میں اسے تمہاری تکلیف کی پروا نہیں تو موت کے بعد بھلا کیوں ہوگی ۔ اگر ہوبھی تو تمہیں اس کا کیا نفع پہنچے گا۔

ایک دفعہ ایک ادھیڑ عمرشخص نے بتایا : پندرہ بیس سال تک مذہبی طور پر تکلیف دہ خیالات اسے تنگ کرتے رہے؛حتیٰ کہ اس کا ذہن مستقل طور پر تکلیف میں ڈوب گیا۔پھر ہر وقت وہ خودکشی کے بارے میں سوچتا رہتا۔ آخری حربے کے طور پر اس نے علاج شروع کرایا۔آخر وہ اس بحران سے نکل آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اب میں ایک بار پھر زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوں۔

خودکشی کے خواہشمندوں کی حقیقی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے‘ جتنے لوگ واقعتاًاس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اکثر لوگ خودکشی کی خواہش کے ساتھ ہی برسوںاور دہائیوں ایک تکلیف دہ زندگی جیتے ہیں ۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ تکلیف میں گزر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دماغ کی کیمسٹری ہی بگڑ چکی ہوتی ہے۔ وہ اپنی قوتِ ارادی کو جتنا مرضی مضبوط کریں‘جتنی مرضی محنت کریں‘ خوش نہیں رہ سکتے۔ایسے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں‘ بظاہر ہٹا کٹا ہونے کے باوجود جن کی ذہنی صحت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اٹھ کر رفع ِ حاجت کرنا بھی انہیں عذاب لگتا ہے۔صحت مند لوگ انہیں ہڈ حرام سمجھتے ہیں۔

جب ایک شخص کے ذہن میں بار بار خودکشی کا خیال آرہا ہوتاہے تو پھر بھی وہ ماہر نفسیات کے پاس کیوں نہیں جاتا؟ جواب: دنیا کے طعنوں کا ڈر‘ اپنی عزتِ نفس کے پامال ہونے کا ڈر اور خود اپنی ہی نظر میں گر جانے کا خوف۔ جس شخص میں بھی خودکشی کا رجحان ہو‘ اگر وہ ایک بات پر عمل کرے تو اس کے بچ نکلنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں