الیکشن2024ءکا آغاز ’ میڈیا پر سنسر شپ ‘ سے ہوا۔اب8فروری،2024ءکو عام انتخابات ہورہے ہیں اب ’ ابہام‘ ہو بھی تو کہا نہیں جاسکتا۔ پیمرا نے اس سلسلے میں ایک ہدایت نامہ بھی جاری کردیا ہے کہ ٹی وی چینلز کیا کرسکتے ہیں کیا نہیں ،اینکرز کیا بول سکتے ہیں کیا نہیں۔یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں کیا کارروائی ہوسکتی ہے۔
کسی بھی جمہوری معاشرہ کا تصور آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کے بغیر ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے نہ ہم کبھی جمہوری معاشرہ بن پائے نہ ہی کبھی میڈیا آزاد رہا چاہے دور آمرانہ ہو یا کمزور جمہوریت کا ،دونوں نے اظہار رائے اور آزادی صحافت کو طاقت اور کالے قوانین کے ذریعہ دبانے کی کوشش کی۔ یہی نہیں ہاں میں ہاں ملانے والوں کو ’’ اشتہارات‘ اور دیگر طریقوں سے نوازا بھی گیا ۔ یوں آہستہ آہستہ قلم کی آبرو جاتی رہی اور پھر مائیک نے قلم کی جگہ لے لی۔ تاہم جو لوگ پرنٹ سے الیکٹرونک کی طرف گئے انہیں بہرحال قلم کی حرمت اور اہمیت کا احساس تھا تو انہوںنے مائیک کے ساتھ ساتھ قلم کا رشتہ بھی برقرار رکھا، الیکشن میں ایک ایسا میڈیا کیا کردار ادا کرسکتا ہے جہاں صحافی اغوا بھی ہوتے ہیں اورقتل بھی جبکہ نہ اغوا کار پکڑے جاتے ہیں نہ ہی قاتل۔یہاں اپنی خبر پرکھڑے رہنے والے بھی صحافی ہیں، جان دینے والے بھی ہیں اور ’ قلم اور مائیک‘‘ کو بیچنے والے بھی ۔ عام طور پر الیکشن کے دوران اشتہارات کی اتنی بھرمار ہوتی ہے، ٹی وی پر اسکرین ٹائم مختلف جماعتیں لے جاتی ہیں ایسے میں میڈیا اپنے اصل مقصد یعنی لوگوں تک حقائق پہنچانے میں کیونکر سرخرو ہو بلکہ اگر خبر ہوتی بھی ہے تو وہ کہیں دب سی جاتی ہے۔ اب چونکہ ہمارے میڈیا کا’ بزنس ماڈل‘ہی اس کا بنا ہوا ہے کہ نام ’ نیوز چینل‘ مگر نیوز کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔اب صورتحال اور بھی خراب ہونے جارہی ہے کیونکہ ان الیکشن میں ’سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا‘ بہت اثر انداز ہوگا لہٰذا ہمارے بہت سے ساتھی اور گروپس جواس پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی ’ مارکیٹ ویلیو‘ کو سامنے رکھیں گے کوئی کسی جماعت کا ترجمان نظر آئے گا تو کوئی کسی کا۔ لہٰذا میڈیا کا کردار ذرا ’مشکوک‘ ہی رہے گا۔ چینل ریٹنگ کی دوڑ سے باہر نہیں آ سکےاور اب ہر یوٹیوبر کو اپنے لیے لاکھوں نہیں تو ہزاروں فالورز چاہئیں جس کیلئے ان میں سے بہت سے تمام حدود اور ضابطے کراس کرنے کوتیار ہوجاتے ہیں۔
2008ء سے اب تک تینوں انتخابات یعنی 2018 اور2013ءمیں الیکٹرونک میڈیا نے رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول ضرور کروائی، ٹاک شوز کی مارکیٹ بھی اوپر گئی مگر انتخابی نتائج اس سے بہت مختلف آئے البتہ کچھ ساتھی یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے لکھا یا کہا وہ درست ثابت ہوا ۔2008کا الیکشن تو خیر غیر معمولی حالات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوا تھا مگر2013ءکے الیکشن کو پی پی پی نے ’ آراوز‘‘ کا الیکشن کہا اور2018ءکے بارے میںRTSکے بیٹھ جانے کا ذکر آیا پھر یہ نتائج کیسے تبدیل ہوئے اگر ہوئے تواس پر بہت زیادہ تفصیلی حقائق کو سامنے لانے والی خبریں نظر نہیں آئیں ماسوائے اس کے کہ ہم مخالفین کے بیانات کا سہارا لے کر ایک بیانیہ بنالیتے ہیں۔
1970ءکے انتخابات کے وقت صرف پرنٹ میڈیا تھا مغربی پاکستان کے اخبارات مشرقی پاکستان کی کوئی اور تصویر پیش کررہے ہوتے تھےاور مشرقی پاکستان کے اخبارات کوئی اور، ایسے ہی 1970ء سے لیکر1971ءتک اخبارات نے اپنے ہی لوگوں سے حقائق چھپائے اور یہاں وہاں کی جماعتوں اور لوگوں کے حوالے سے ایک خاص اور مخصوص نقطہ نظر پیش کیا۔1977ءمیںجمہوری حکومت ہونے کے باوجود اخبارات کو مکمل آزادی نہ تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ بہت سے اخبارات اور رسائل کی خبریں حقائق کے برعکس بھی پیش کی جاتی تھیں۔ اگر کوئی پارٹی رہنما کوئی پوزیشن لیتا تو بات سمجھ میں آتی تھی لیکن اگر میں لبادہ آزاد اور غیر جانبداری کا پہنوں اور عمل اس کے برعکس ہوتو یہ صحافتی بددیانتی ہے۔ پھر مارشل لا لگ گیا تو ہمارے بہت سے ’ نامور صحافیوں‘ اور دانشوروں نے اپنی اپنی سیاسی خواہشات جنرل ضیا کے سامنے رکھیں یہاں تک کہا آپ الیکشن ملتوی کردیں آپ کے حق میں بیانیہ ہم’ صحافی‘ بنائیں گے اور پھر انہوں نے اپنے اخبارات اور رسائل کے ذریعہ یہ کیا بھی۔ جواب میں مراعات حاصل کرنے کی بھی فہرست ہے تاہم یہ سارے لوگ آج بھی صحافت میں’ بڑا کام ‘ کررہے ہیں۔
صحافیوں کے وزیر اور مشیر بننے کا شوق بھی پرانا ہے،وہ نہ بن سکے تو سرکاری نوکری ہی مل جائےکیونکہ صحافتی ضابطوں اور اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں چنانچہ جب چاہو صحافی بن جائو جب چاہو وزیر ۔ اب تو بات وزیر سے وزیر اعلیٰ یہاں تک کہ نگراں وزیر اعظم بھی کہتے ہیں کہ وہ بھی صحافی رہے ہیں۔
کسی صحافی کا سیاست میں آنا کوئی معیوب بات نہیں۔ آپ اعلان کریں کہ میں نے صحافت کا شعبہ چھوڑ کرعملی سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا، سوبسم اللہ ، مشاہد حسین سید کی مثال موجود ہے۔ اپنے زمانے کے اچھے صحافیوں اور مدیروں میں شمار ہوتے تھے بعد میں سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ تاہم زیادہ رجحان ڈان کے سابق مدیر الطاف حسین سے لیکر آج تک وزیر مشیر، وزیر اعلیٰ یا سرکاری عہدہ لینے کا رہا ہے۔
اب ایک ایسےماحول میں جہاں میڈیا سیاسی طور پربھی تقسیم ہو اور صحافتی طور پر بھی، کیا صحافتی تنظیمیں، ایڈیٹرزیہاں تک کہ مالکان کم ازکم الیکشن 2024میں میڈیا کے کردار کےحوالے سے کچھ بنیادی نکات پرمتفق ہوسکتے ہیں۔ خود صحافتی تنظیمیں بھی ازخود کوئی ضابطہ تیار کرسکتی ہیں جوکہ ظاہر ہے عملی طور پر منوانا مشکل ہوگا تاہم نئے آنے والوں کیلئے ایک گائیڈ لائن ضرور دے سکتا ہے جیسا کہ2008 میںPFUJنے الیکشن سے پہلے ایک دستخطی مہم کے ذریعہ کیا ،جس کا عنوان تھا۔‘FREE MEDIA FOR FREE POLLS اس پر 1452صحافیوں کے دستخط تھے۔
الیکشن۔2024ءصرف سیاست کا نہیں آزاد اور غیر جانبدارصحافت کانام لینے والوں کا بھی امتحان ہوگا۔