چار ہفتے ہو چلے ہیں تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے ہاتھوں غزہ اور مغربی کنارے پہ نہتے فلسطینی بچوں کی چیخیں اور عورتوں کی آہ وزاریاں سننے والا کوئی نہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ والے بھی اور فقہ موسوی پہ عمل کرنے والے بھی کہیں غائب گئے۔ قیامت کا رن پڑا ہے۔ دس ہزار سے زائد فلسطینی لقمہ اجل بن چکے اور جنگ کے عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن طاق نسیاں ہوئے۔ 28 روز کی بمباری سے غزہ تباہ و برباد ہوچکا، اب ہسپتال اور پناہ گاہیں بھی نشانہ پہ ہیں۔ اسرائیلی بری فوجیں اب غزہ شہر کا محاصرہ کرچکی ہیں اور آخری معرکے تک آگ و خون کی ہولی کب تک چلے گی یا پھر جنگ بندی کی کوئی راہ نکل پائے گی؟ فلسطینیوں کی پہلی دربدری (1948) اور دوسری وطن بدری (1967) کے بعد کیا اب صحرائے سینا میں غزہ کے پناہ گزینوں کو بدر کیا جائے گا؟ یا پھر غزہ کی زیر زمین سرنگوں اور ملبوں تلے بنی خندقوں میں چھپے حماس کے مجاہدین 200 سے زائد اسرائیلی مغویوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پہ مجبور کردیں گے۔ دونوں اطراف کیلئے ایک بڑا جوا ہے۔ گوکہ یہودی یرغمالیوں کے معاملے پہ اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت سخت دبائو میں ہے اور جسکا مستقبل بھی بہت مخدوش ہے پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوگی یا پھر انکی سلامتی کو دائو پہ لگا کر حماس کا خاتمہ کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گی، تب تک یوں لگتا ہے کہ اسرائیل غزہ کی شمالی پٹی کو ملیا میٹ کرچکا ہوگا اور غزہ کے مہاجرین جنوبی حصے میں مقید کردئیے جائیں گے یا پھر صحرائے سینا میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ قاہرہ میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں مصر کو اس کے عوض اس کے 165 ارب ڈالرز کے قرضے معاف کرنے کی آفر کی گئی تھی، لیکن صدر السیسی ابھی تک فلسطینیوں کو وادی سینا میں پناہ دینے کو تیار نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ 1948 کے بعد فلسطینیوں کا دوسرا بڑا انخلا (عقبہ) ہوگا۔ لبنان سے حزب اللہ اور یمن سے حوثی مجاہدین کی جانب سے محاذ کھولے جانے کی جو خبریں آرہی تھیں وہ حزب اللہ کے قائد کی گزشتہ روز کی تقریر کے بعد فی الحال دم توڑ گئی ہیں۔ اب فلسطینیوں کے ساتھ اگر کوئی کھڑا ہے تو صرف ایران۔ لگتا ہے کہ زیادہ تر عرب ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر اور اُردن اس انتظار میں ہیں کہ حماس کا یا تو پتہ صاف ہوجائے یا پھر اسرائیل پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوجائے۔ اس لیے 22 عرب ملکوں پر مشتمل عرب لیگ کا اجلاس 11 نومبر کو جنگ شروع ہونے کے 34 روز بعد طلب کیا گیا ہے۔ اس دوران عالمی رائے عامہ کا پلڑا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں پلٹ گیا ہے اور دنیا بھر میں خاص طور پر مغرب میں جنگ بندی اور انسانی کمک کیلئے لاکھوں لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔ گو کہ سلامتی کونسل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کردیا ہے، لیکن جنرل اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے جنگ بندی کی قرار داد پاس ہوچکی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور اس کے زیادہ تر اتحادی اسرائیل کے حق دفاع میں اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوچکے ہیں۔ لیکن اب عالمی رائے عامہ کے دبائو اور خود امریکہ میں صدر بائیڈن کی اگلے انتخابات خاص طور پر رنگ بدلتی ریاستوں میں ممکنہ ناکامی کے امکانات بڑھنے سے امریکی انتظامیہ مجبور ہوئی ہے کہ اسرائیل کو مزید خون خرابے سے روکنے کی بظاہر ڈرامہ بازی کرے۔ لیکن لگتا ہے کہ اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی صہیونی حکومت ابھی پیچھے نہ ہٹے گی۔
یہودیوں کے ساتھ طویل زیادتیوں اور وطن بدریوں اور دوسری جنگ عظیم کے ہولوکاسٹ کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاست (14مئی 1948) خود ایک بدترین نوآبادیاتی آبادکار (صہیونی) ریاست بن گئی۔ سلطنت عثمانیہ کے قبضہ کے خاتمے پر برطانوی قبضہ ہوا اور 1917میں بالفور اعلامیہ جاری کیا گیا۔ لیکن جو قرارداد نمبر 181 اقوام متحدہ میں پاس ہوئی اس میں اسرائیلیوں اور عربوں کے دو صوبے فلسطین کی سرزمین پہ قائم ہونے تھے، گویا دو ریاستی حل ڈھونڈا گیا۔ لیکن ڈیوڈبن گوریان نے اسرائیل کی ریاست کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں 7 لاکھ فلسطینیوں کو انکی سرزمین سے بیدخل بھی کردیا۔ خود عرب ممالک بھی علیحدہ فلسطینی ریاست نہیں چاہتے تھے۔ لہٰذا مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم، اُردن غزہ کا علاقہ مصر اور گولان کی پہاڑیاں شام کے قبضے میں آگئیں۔ لیکن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں عربوں کی زبردست شکست کے باعث یہ تمام علاقے اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے اور تب سے یہ جھگڑا پڑا ہے کہ ان مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس مزاحمت میں فلسطینی محاذ آزادی (PLO) اور چیئرمین یاسر عرفات فلسطینیوں کے قائد بن کر اُبھرے۔ الفتح اور بائیں بازو کی انقلابی تنظیموں کی جدوجہد کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین ایجنڈے پہ آگیا۔ اور امن کی راہ نکلنے لگی۔ جو تین مسئلے سامنے آئے وہ یہ تھے فلسطینیوں کی واپسی کا حق، یروشلم پہ تینوں مذاہب کے دعوے کا حل اور مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام میں حائل اسرائیلی آبادکاروں کے بڑھتے ہوئے قبضے کا خاتمہ۔ پی ایل او اور اسرائیل کے مابین اوسلو میں خفیہ مذاکرات کے ذریعہ 1993 اور 1995 میں معاہدے ہوئے اور چیئرمین یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابین کے مابین 1993 میں صدر کلنٹن کی موجودگی میں امن کے پراسیس کو آگے بڑھانے پہ اتفاق ہوگیا۔ لیکن صہیونی انتہا پسندوں نے اسحاق رابین کو قتل کردیا اور وہاں نیتن یاہو جیسے انتہا پسند آگئے اور معاہدے پہ عمل درآمد آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہٹ گیا تو فلسطینیوں میں بھی مسلح جدوجہد کے حامی سامنے آنے لگے اور فلسطینی اتھارٹی امن کی کوششوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی ناکامی میں نہ صرف اسرائیل نے بڑا کردار ادا کیا بلکہ اسرائیل نے شدت پسندگروپوں کی بھی اعانت کی۔ اس اندرونی کشمکش کے نتیجے میں حماس 2007 کے انتخابات میں کامیاب ہوکر غزہ پہ قابض ہوگئی۔ اب حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیلی شہریوں پہ جو حملہ کیا اسکے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ یہ محض مہم جوئی ثابت ہوگا یا پھر اس سے کوئی امن کی راہ نکلے گی۔ بہر کیف جو بات تاریخی طور پر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ صہیونیت پسندی یا دہشت گردی سے اسکا حل ہونے والا نہیں۔ اسرائیل کو اگر سلامتی چاہیے تو وہ فلسطینیوں کو انصاف دئیے بغیر اور انکی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں جو اسرائیل کے ساتھ بقائے باہم پر عمل پیرا ہو۔تاریخ کی ناانصافیوں کے گناہ فلسطینیوں کے ساتھ انصاف اور اسرائیل کی سلامتی سے ہی دھل سکتے ہیں۔