بابا جی کا ایک مرید!

میرے ایک بیوروکریٹ دوست ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں، اِن دنوں ہر وقت ان کے ایک ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے اور دوسرا ہاتھ کسی کی جیب میں ہوتا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ اللہ نے انہیں اب ہدایت دے دی ہے اور وہ اپنی بقیہ زندگی اپنے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق بسر کریں گے۔ میں نے پوچھا منصوبہ کیا ہے؟ فرمایا میں نے زبانی یاد کیا ہوا ہے، بس تم نے درمیان میں ٹوکنا نہیں، صرف سنتے جانا ہے۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے، اب شروع ہو جائو‘‘ اور موصوف شروع ہو گئے۔

’’میں نے اس سوچ کو عام کرنا ہے کہ دنیا فانی ہے چنانچہ اس کے ساتھ دل لگانے کی بجائے ہر وقت آخرت کی فکر کرنی چاہیے، میں بدقسمتی سے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے کئی عالیشان کوٹھیاں بنا چکا ہوں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو مسمار کرنا تو مناسب نہیں لیکن لوگوں کو یہ ضرور بتائوں گا کہ بڑی بڑی کوٹھیوں کے خواب دیکھنے کی بجائے وہ ہر وقت اس تنگ و تاریک قبر کو دھیان میں رکھا کریں جس میں انہوں نے قیامت تک رہنا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے، عہدہ، منصب، اقتدار، دولت، یہ سب چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں، ان کے حصول کیلئے اپنا دین و ایمان دائو پر نہ لگائیں۔ میں نے خود تمام عمر ان باتوں کا خیال رکھا اور اپنی اس نیکی کو اتنا مخفی رکھا کہ خود مجھے بھی اس کی خبر نہ ہوئی۔ میرے پاس جو سائل آتے تھے وہ میرے اخلاقِ عالیہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے کرنسی نوٹوں سے بھرے ہوئے بیگ بطور ہدیہ مجھے پیش کرتے تھے مگر میں نے کبھی ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور سائلوں سے کہا کہ وہ یہ میرے پی اے کو دیدیں کہ وہ عیالدار شخص ہے۔ بعد میں میرا پی اے وہ سارا مال و زر میرے پاس بطور امانت رکھوا دیتا تھا۔ وہ پی اے فوت ہو گیا ہے اور اس کی یہ ساری امانتیں میرے پاس محفوظ ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد میں اس امر کی تلقین کے لیے اپنی بقیہ عمر وقف کردوں گا کہ بس لوگ اخلاقِ حسنہ کو اپنائیں، کسی کو حقیر نہ سمجھیں، البتہ عزت، دولت اور منصب اللہ کی دین ہے، وہ جسے چاہتا ہے یہ سب کچھ دیتا ہے چنانچہ جن پر اللہ مہربان ہے ان کی عزت ہم پر واجب ہے اور جنہیں خود اللہ نے ان چیزوں سے محروم رکھا، ان کے حال پر اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے تو کرے، ہم مجبور بندے کیا کر سکتے ہیں، میں لوگوں کو بتائوں گا کہ اپنی ساری سروس کے دوران میں نے اس اصول کو عزیز رکھتے ہوئے بڑے لوگوں کا فون بھی کھڑے ہو کر سنا کہ بیٹھ کر فون سننے میں بےادبی کا احتمال تھا، اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں جانے دیتا، چنانچہ جن لوگوں کی میں نے عزت کی انہوں نے مجھے ترقیوں پر ترقیاں دیں تاہم میں لوگوں کو یہی تلقین کروں گا کہ وہ دنیاوی آن بان اور شان و شوکت پر کبھی ناز نہ کریں، میں نے اللہ کی دی ہوئی بےپناہ عزت اور دولت کے باوجود اپنے نائب قاصد کے سلام کا جواب بھی آنکھ کی ہلکی سی جنبش سے ضرور دیا اور اس میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔

میں نے اوائل جوانی ہی میں ایک صاحبِ کرامت بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ یہ بزرگ لوگوں کو مشکل میں نہیں ڈالتے تھے، چنانچہ فرماتے تھے کہ صرف داڑھی رکھ لو اور نماز پنجگانہ ادا کرو، اس کے بعد اللہ کو غفور و رحیم سمجھتے ہوئے ہر قسم کی فکر سے آزاد ہو جائو، چنانچہ ان کی انہی حکیمانہ تعلیمات کی وجہ سے صاحبانِ اقتدار، جرنیل، جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار اور بیوروکریسی کے ارکان سب ان کے ہاتھ پر بیعت تھے۔ ایک وقت آیا کہ انہوں نے داڑھی کی شرط بھی ہٹا دی کہ ان کے کچھ مریدوں نے کھجلی کی شکایت کی تھی، البتہ نماز اور وظائف کے ورد کی تلقین وہ ہمیشہ کرتے رہے، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی دعائوں کے طفیل بےشمار لوگ جو نیب کے شکنجے میں آگئے تھے، صاف بچ کر نکل گئے۔ دراصل نیب کے کچھ افسر بھی میرے بابا جی ہی کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے، میں ان شاء اللہ ریٹائرمنٹ کے بعد اس صاحبِ کرامت بزرگ کی تعلیمات کے فروغ کے لیے آخری سانس تک کام کروں گا۔

ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اسی قسم کے کئی اور منصوبے میرے ذہن میں موجود ہیں جنہیں صرف عملی شکل دینا ہے۔ میں بہت گنہگار انسان ہوں، میں نے اگرچہ اپنے بابا جی کی تعلیمات کے عین مطابق زندگی گزاری تاہم بندہ بشر ہوں، کوتاہی ہو جاتی ہے لغزشوں سے کون بچا ہے، بس بابا جی کا آسرا ہے جو اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے، میرا ایک ملحد دوست ہر وقت انٹ شنٹ بکتا رہتا ہے، کہتا ہے تم اور تمہارے بابا جی صرف اس صورت میں جنت میں داخل ہو سکیں گے اگر داروغہ جنت بھی تمہارے بابا جی کی تعلیمات کا ماننے والا ہوا۔ میں ان دنوں اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کی کوشش کررہا ہوں محض اس لئے کہ خلقِ خدا کی مزید خدمت کر سکوں، چنانچہ کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں اپنے اس منصوبے پر عمل شروع کردوں گا جس کا ہلکا سا خاکہ میں نے آپ کی خدمت میں بھی پیش کیا ہے، اب صرف آپ کی دعائوں کی ضرورت ہے۔‘‘

جب اس نے رٹا رٹایا سبق سنا دیا تو مجھ سے پوچھا ’’اس منصوبے کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’منصوبے کے بارے میں تو نہیں البتہ تمہیں ایک بات کہنا چاہتا ہوں‘‘ کہنے لگا ’’کہو‘‘، میں نے کہا ’’درفٹے منہ‘‘ اور پھر اپنے اس دوست کو مزید چڑانے کیلئے دانت نکال کر ہنسنے لگا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں