گزشتہ روز دہشت گردی کے تین واقعات ہوئے ،ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک پولیس وین کو ٹارگٹ کیا گیا ۔ پانچ لوگ شہید ہوئے اور بیس زخمی ۔ پسنی سے اورماڑا جانے والی سیکورٹی فورسزکی دو گاڑیوں پرحملہ کیا گیا ۔چودہ جوان شہید ہو ئے۔تین جوان لکی مروت میں شہید ہوئے ۔اس وقت یہ سوگوار قلم دہشت گردوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں لفظ نہیں لکھ رہا ۔ اپنے قلم کے ٹکڑے سڑک پر بکھیررہا ہوں۔کاش ہم ان دہشت گرد درندو ں کو چوک چوک پھانسی لٹکاتے ۔ان کے سہولت کاروں کو نشانہ ِ عبرت بنا دیتے ۔دہشت گردی ختم ہوتی یا نہ ہوتی دل کو تو چین پڑتا۔
میں ان خونی لبرلز کو کیا کہوں ۔اس وقت حملے پاکستان میں ہوئے ہیں ۔بیانیہ بھارت میں تشکیل پائے گااور پھراسے پھیلائیں گے ،افغان اور دوسرے سوشل میڈیا کے بیرونی اکاؤنٹس ۔جہاں پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ڈالروں کے بیگ کھلے پڑے ہیں ۔یقیناً اسمگلرزبھی بھنگڑے ڈالیں گے ۔کیونکہ فوجی جوانوں نے افغان بارڈ ز سیل کر دئیے ہیں مگریہ بات طے ہے کہ سماج، معیشت اور سیکورٹی کے حالات بیٹھے بٹھائے ٹھیک نہیں ہوتے ۔انہیں ٹھیک کرنے کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ قوم بڑی قربانی دے رہی ہے ۔افواج پاکستان اور اس کے اہلکار بھی ملک وقوم پر اپنی جانیں نثار کررہے ہیں ۔ہم ایک کڑی آزمائش سے گزررہے ہیں۔اور قرآن حکیم میں آیا ہے ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ ‘‘(العنکبوت)۔
غزہ، شام اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں ہر چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔دوسروں پر بھروسہ ممکن نہیں ۔جو کرنا ہوگا ،خود کرنا ہوگا۔
پاکستانیو! ہمیں خود سنبھلنا ہے۔ کوئی اور ہمیں نہیں سنبھالے گا۔خدا بھی صرف انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔جو تکالیف ومصائب کا ہمت و جرات سے مقابلہ کرتے ہیں ۔اور قومیں ایسے موسموں میں بتایا کرتی ہیں کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں ۔وہ پاکستانی، جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ وقت نہیں کہ وہ میدان سے باہر بیٹھ کرتماشہ دیکھیں ۔اس کڑے وقت میں انہیں آنا ہوگا ۔پوری قوم کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے اور مسائل سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی ۔ریاست مدینہ جب ابھی اپنے اوائل میں تھی، سماج اور معاش ابھی بن رہے تھے لیکن جنگ مسلط ہوئی تو اہلِ مدینہ نے جنگِ بدر میں ایمان اور اتحاد کی فضابنا کر اپنی فتح ونصرت کے لئے فرشتوں کا انعام پایا۔ہمیں بھی وہی ماحول بنانا ہے۔ ہم نے دہشت گردی سے گھبرانا نہیں ۔پیچھے نہیں ہٹنا ۔ آگے بڑھنا ہے۔یک جان ہو کر۔ ایک للکار کے ساتھ تاکہ دشمنوں کے دل دہل جائیں ۔ہمیں طوفانوں کے جگر چیر دینے ہیں ۔
پسنی ، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت میں ہونے والی بائیس قربانیاں ۔چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ملک خد اداد کو چیلنج کیا گیاہے۔یہ حملے صاف بتارہے ہیں کہ ریاست نے جو بھاری ہاتھ اسمگلرز اور غیر قانونی مقیم افراد پر رکھا ہے ،یہ اسکا جواب ہے ۔ان حملوں کا وقت، ترتیب اور ہم آہنگی بتارہی ہے پاکستان نے اپنے چھپے اور کھلے دشمنوں کو جہاں چوٹ لگائی ہے وہ بالکل درست جگہ پر لگی ہے،اب یہ بھاگتے ہوئے انتشار پسند نہتوںپرحملے کررہے ہیں۔اپنے فرائض ادا کرنیوالوں کو شہید کر رہے ہیں ۔لیکن یہ ریاست بھی انکے تعاقب میںہے اوران شااللہ آخری دہشت گرد تک بھرپور تعاقب جاری رہے گا۔یہ منتشرذہن،یہ شرپسند ،یہ دہشت گردوہی کررہے ہیں جو انکی تربیت ہے اور جو ان کا کام ہے ۔ بے شک یہ بے چہرہ جنگ بڑی طویل بھی ہے اور صبر آزما بھی ۔ مگر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ طویل جنگ صاف ذہن، پختہ ارادے اور غیر متزلزل یقین کے ساتھ فتح مندیوں سے ہمکنار ہو گی ۔ان شااللہ پاکستان اس جنگ میں کامیاب و کامران ہوگا ۔اسے اللہ کی طرف سے نصرت ملے گی اور دشمنان ِ پاکستان کا عبرت ناک انجام ہوگا۔پاکستان ترقی کرے گا۔پختہ حوصلوں اور محکم ارادوں سے آگے بڑھے گااورایک دن دنیا کا عظیم ملک ہوگا ۔ اس بات پرمیرا ایمان ہے کہ اک ذرا صبر کہ وہ دن دورنہیں ۔ کبھی مایوس نہیں ہونا۔ ہر حملے کے بعد ایک نئے جوش اورنئے ولولے سے آگے بڑھنا ہے ۔ پوری قوت کے ساتھ ۔پورے یقین سے ۔ مکمل اعتماد کے ساتھ۔
مجھے آج پھر آرمی پبلک اسکول کے بچے یاد آرہے ہیں ۔ ایسے ظالموں کو مسلمان کہنے والوں پر بھی لعنت ہو۔ وہ خون سے لتھڑا ہوا زخم زخم دن جب ذہن میں لہراتا ہے تو میں لرز لرز جاتا ہوں ۔ ہائے ہمارے بچے بھیڑوں بکریوں کی طرح ذبح کیے گئے ۔
گیارہ ستمبرکو دہشت گردی کا خوفناک واقعہ امریکہ کی تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے ۔لندن میں سیون سیون کی دہشت گردی میں بھی بہت سے لوگ ہلاک ہوئے مگر دونوں ممالک نے دوبارہ اس طرح کاواقعہ نہیں ہونے دیا ۔اپنے ملکوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کوروک لیا۔ہمیں بھی معلوم ہے کہ ہمارے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے کون ہے ۔ ہمارے پاس ان ممالک کے دہشت گردی میں ملوث ہونےکے ناقابل تردید ثبوت موجودہیں ۔ہمیں ان دونوں ممالک کے ساتھ آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا ہوگی ۔انشااللہ بہت جلد
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کے سیماب پاہو جائیگی
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بوئے گل کی ہم نفس باد صبا ہوجائیگی