بچپن میں افغانستان کے بارے میں پہلا سبق یہ پڑھایا گیا تھا کہ وہاں خدا کے منکر کمیونسٹوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اب سوویت یونین کا اگلا نشانہ پاکستان بنے گا کیونکہ اسے گرم پانیوں تک رسائی چاہیے۔
توافغان جہاد محض افغانستان کی آزادی کی جنگ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ آزادی کی اس جنگ میں ہمیں ایسی تاریخی اور عظیم الشان فتح ہوئی کہ نہ صرف سویت یونین کو افغانستان سے پسپا ہونا پڑا بلکہ سویت یونین کا وجود ہی دنیا سے ختم ہو گیا۔
ہمارے اس وقت کے فاتحین نے اپنے ڈرائنگ روموں میں دیوار برلن کے ٹکڑے فریم کروا کر لگا لیے اور یہ دعوے شروع کر دیے کہ ہم نے مشرقی جرمنی سے آزربائجان تک ایک تہائی دنیا کو کمیونسٹوں کے چنگل سے آزاد کروا لیا ہے۔ اب رکنے کا وقت نہیں ہے یہی آگے بڑھ کر وسطی ایشیا کے مسلمانوں میں چھا جانا چاہیے۔
دنیا نے ہمارے ساتھ وفا نہیں کی بجائے اس کے وہ انھیں اپنا محسن مانتے انھوں نے پاکستان اور افغانستان کا نام ساتھ لے کر کہنا شروع کر دیا کہ ہم افغانستان میں پھنسے رہے اصل مسئلے کی جڑ تو اسلام آباد میں ہے۔
دنیا نے ہم سے بے رخی برتی تو ہم نے پاکستان کی افغان پالیسی کی ایک نئی اور گنجلک قسم کی توجیح ڈھونڈی۔
ہمارے ایک سپاہ سالار اسلم بیگ ہوتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کو سٹریٹیجک ڈیپتھ ملی ہے۔ معلوم نہیں کہ جنرل بیگ نے یہ اصطلاح خود تراشی یا سٹاف کالج میں پڑھے کسی انگریزی مضمون سے سرقہ کیا۔
انھوں نے کبھی سٹریٹیجک ڈیپتھ کا مطلب نہیں سمجھایا لیکن نئے نئے میدان میں آئے دفاعی تجزیہ نگاروں نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دشمن پاکستان پر حملہ کرے گا تو افغانستان ہمارے پچھواڑے میں ہے، اور بھائی ہے تو ہم پاکستان کا دفاع صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھی کر سکیں گے۔
گالف کورس میں پھرتے اور اپنے آپ کو نیپولین کہتے ان فاتحین سے کسی کو یہ پوچھنے کی جرات نہیں ہوئی کہ کیا واقعی جب دشمن ہم پر حملہ آور ہو گا تو ہم اپنے ٹینک اور لڑاکا جہاز لے کر افغانستان کے غاروں میں گھس جائیں گے اور اپنا دفاع وہاں سے کریں گے۔
ابھی ابھی تو ہم نے سویت یونین کے ٹوٹے ٹوٹے کیے تھے اب ہم افغانستان میں پناہ گاہیں کیوں تلاش کر رہے ہیں۔
اس بیچ میں کسی اردودان کو خیال آیا کہ سٹریٹیجک ڈیپتھ جیسے عظیم الشان فلسفے کا اردو ترجمہ بھی ہونا چاہیے۔ تزویراتی گہرائی ایجاد ہوا اور مستعمل بھی۔
اگر پہلے آپ کو ہماری افغان پالیسی سمجھ نہیں آتی تھی، اب تو آ ہی گئی ہو گی۔
جب ہمارے بڑے جناتی اصطلاحات گھڑ رہے تھے اور مال بنا رہے تھے۔ جی ہاں، میرے بچپن میں پاکستان پوری مغربی اور مسلمان دنیا سے ملنے والے جہاد کے چندے پر کافی خوشحال لگتا تھا۔
افغانستان میں کبھی جہاد ختم نہیں ہوا، وہاں سے اجڑ کر لوگ پاکستان پہنچے، مزدوریاں کیں، ریفیوجی کیمپوں میں رہے، جھونپڑی بنائی، گھر بنا لیے، چھوٹے موٹے دھندے، خواب بھی وہی دیکھنے شروع کر دیے جو ہر پاکستانی غریب دیکھتا ہے، کہ کسی طرح بچے پڑھ لکھ جائیں۔
جو افغان ہمارے بچپن میں آئے تھے اب ان کے بچے بھی جوان ہیں۔ ان میں سے جس کسی کی بھی آواز میڈیا تک پہنچی ہے انھوں نے یہی کہا ہے کہ افغانستان کون سا افغانستان؟ ہم تو پیدا ہی پاکستان میں ہوئے تھے۔ جس کو پاکستان کے قانون سے تھوڑی سی بھی واقفیت ہے وہ جانتا ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ پاکستان کی شہریت کا حقدار ہے۔
نہ صرف پاکستانی حکمران اپنے ہی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ قوم کو بھی یہ یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ افغان ہیں، ان کو نکالو اگر ان کے پاس کوئی منقولہ یا غیرمنقولہ جائیداد ہے تو وہ بھی رکھوا لو۔ گھر دکان نہ بیچنے دو، اگر کسی کے پاس کوئی بکری بھینس ہے تو وہ بھی ادھر ہی رہے گی۔
اس زندگی میں کم ہی ایسی ہولناک تبدیلی آئی ہے کہ افغان اور افغانستان پاکستان کی حفاظت کی ضمانت تھے اور اب ان کا ملک میں وجود بھی سب سے بڑا خطرہ ہے جس کے لیے پوری ریاستی مشینری پاکستان کو افغانوں سے پاک کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستانی دانشور کبھی کبھی افغانستان پر نمک حرامی کا الزام لگاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ وہ ہمارے شکر گزار کیوں نہیں ہیں۔
جن بچوں نے افغانستان کبھی نہیں دیکھا، اور اب انھیں زبردستی وہاں بھیجا جا رہا ہے جب وہ بڑے ہوں گے تو سوچیں گے کہ تزویراتی غلطیوں سے خون کس کا بہا، نمک حرام ہم ہیں یا وہ؟