ایک اور کربلا؟

بہت دنوں سے فلسطینیوں پر ہونے والے بہیمانہ مظالم کی خبریں پڑھ رہا ہوں اور ان کی فوٹیجز دیکھ رہا ہوں، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے 1.8 بلین مسلمانوں کی طرح عملی مدد نہ کرسکنے کی وجہ سے اسرائیل کی تباہی و بربادی کی دعا مانگتا رہتا ہوں، دنیا کے انچاس ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت اور وہ مختلف زبانیں بولتے ہیں تاہم الحمد للہ فلسطین کے مسلمانوں کیلئے دعا عربی ہی میں مانگتے ہیں، عالم اسلام میں سے تین مسلم ملکوں نے یہ ’’جسارت‘‘ کی ہے کہ اسرائیل کے سفیر کو اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا کہہ دیا ہے، مگر اس سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ غیر مسلم ممالک نےبھی اسرائیل کے سفیر کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے تاہم ہم سب مسلمان مجموعی طورپر یہ امید رکھے ہوئے ہیں کہ آسمان سے فرشتے اتریں گے اور وہ اسرائیلی فوج کے وہ بم دبوچ لیں گے جو عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں پر پوری بے رحمی سے برسائے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ فرشتے یہ بم دبوچ کر ہمارے بی ہاف پر اسرائیلی فوج پر پھینک کر ان کو تباہ وبرباد کردیں گے۔ غیر مسلم ممالک کے حکمران اسرائیل کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں لیکن ان ممالک کے عوام کی انسان دوستی کو سلام کہ انہوں نے ان مظالم کے خلاف اتنے پرہجوم اور پرجوش مظاہرے کئے ہیں کہ ہم ان کاشکریہ ادا نہیں کرسکتے۔

اس سےزیادہ انسان دوستی اور کیا ہو گی کہ امریکہ میں مقیم یہودیوں نے بھی اسرائیل کی انسانی دشمنی کے خلاف بھرپور مظاہرہ کیا ہے، انڈیا میں بھی فلسطینیوں کی جنگ آزادی کے حق میں ایک بھرپور مظاہرہ ہوا ہے، جبکہ پاکستان میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے ہیں تاہم غیر مسلم ممالک میں کئے جانے والے مظاہروں کے مقابلے میں عوام کی شرکت بہت کم تھی۔ہم تو کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کے حق اور ان پر ہونے والے مظالم پر جو مظاہرے ارینج کرتے ہیں ان کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے مظاہروں کی بجائے کشمیری بھائیوں کیلئے صرف دعا پر اکتفا کرلیا جائے۔

میں عموماً ایسے مناظر دیکھنے سے پرہیز کرتا ہوں، جس میں کسی بھی قسم کی بربریت کا مظاہرہ ہو، جس سے لوگوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جا رہےہوں، عورتوں اور بچوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہوں، لیکن ان دنوں ایسے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں جو اس سے پہلے نظر سے نہیں گزرے تھے، اسرائیل کے فوجیوں نے ہسپتالوں پر بم گرائے ہیں، آبادیوں پر بم گرائے ہیں، شہرکے شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ہیں اور یوں یہاں دنیا کا سب سے بڑا قبرستان نظر آ رہا ہے، مائیں اور باپ اپنے شدید زخمی بچوں کو ہاتھوں میںاٹھائے کسی ہسپتال یا ڈاکٹر کی تلاش میں نظر آتے ہیں، مگر ان کی یہ آخری آس بھی ختم کردی گئی ہے کہ انہیں ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔ والدین نے اپنے بچوں کے ہاتھوں پر ان کے نام تحریر کردیئے ہیں تاکہ بمباری کےبعد ان کی لاش ہی کہیں سے مل جائے تو وہ اسے پہچان سکیں۔

مسلمان آج تک کربلا کا سانحہ نہیں بھول پائےجہاں یزیدیوں نے آل رسول ﷺکو بے رحمی سے شہید کیا، بچوں کے سینوں پربھی تیر چلائے مگر فلسطینی بھی تو اسی رسول ﷺکے امتی ہیں ان کی اس طرح نسل کشی پر ہماری آنکھوں سے آنسو اس طرح نہیں ٹپکتے جس طرح ٹپکنے چاہئے تھے۔ امام حسین رضہ اللّٰہ عنہ اور ان کے عزیز و اقارب اور ان سے محبت کرنے والوں کا بدلہ تو مختار ثقفی نے چکا دیا تھا اور امام کے قاتلوں کو چن چن کر جہنم رسید کیا تھا، فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام کا بدلہ کون لے گا،مسلمان تو شاید نہ لے سکیں کہ بقول اقبالؒ؎

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اقبال کے اس شعر کی تشریح یہ ہے کہ اس جنگ کے دوران دنیا کی بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے دفاتر بند کرکے واپس چلی گئی ہیں اور یوں آگے چل کر بدبخت اسرائیل کی معیشت تباہی کی زد میں آئےگی اور اسے سنبھلتے سنبھلتے وقت لگے گا۔ یہ ہمارے آج کے دور کے مختار ثقفی کی طرف سے نئے یزیدیوں سے بدلے کی صورت ہوگی۔

اب آخر میں رحمان فارس نے اس حوالے سے میرے اور آپ کے جذبات کی جس طرح ترجمانی ایک نظم میں کی ہے، وہ بھی سن لیں۔

بچہ ہے، اس کو یُوں نہ اکیلے کفن میں ڈال‎

ایک آدھ گُڑیا، چند کھلونے کفن میں ڈال

‎کپڑے اِسے پسند نہیں ہیں کُھلے کُھلے

‎چھوٹی سی لاش ہے، اِسے چھوٹے کفن میں ڈال

‎دفنا اِسے حُسَین کے غم میں لپیٹ کر‎

یہ کربلائی ہے، اِسے کالے کفن میں ڈال

‎ننّھا سا ہے یہ پاؤں، وہ چھوٹا سا ہاتھ ہے

‎میرے جگر کے ٹکڑے کے ٹکڑے کفن میں ڈال‎

مُجھ کو بھی گاڑ دے مرے لختِ جگر کے ساتھ

‎سینے پہ میرے رکھ اِسے، میرے کفن میں ڈال

‎ڈرتا بہت ہے کیڑے مکوڑوں سے اِس کا دل

کاغذ پہ لکھ یہ بات اور اس کے کفن میں ڈال

‎عیسٰیؑ کی طرح آج کوئی معجزہ دکھا

‎یہ پھر سے جی اُٹھے، اِسے ایسے کفن میں ڈال

‎سوتا نہیں ہے یہ مِری آغوش کے بغیر‎

فارس! مُجھے بھی کاٹ کے اِس کے کفن میں ڈال

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں