اگر واقعی صلاح الدین ایوبی آ گیا تو پھر؟

سچی بات تو یہ ہے کہ صرف ایک قتل کا سن کے دل و دماغ کو کچھ نہیں ہوتا، 10 ہوں تو دھیان میں پہلی بار سوال سر اٹھاتا ہے کہ خیر تو ہے یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

100 قتل ہوں تب دل سے آواز آتی ہے ’اللہ رحم کرے۔‘ جب روز ہزار انسانوں کے مرنے کی اطلاع ہو تو دل اور دماغ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کے دونوں ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔

آخر کوئی کب تک مقتولوں کے لاشے اور قاتل کی گھاتیں شمار کرتا رہے، ہفتہ، دو ہفتے، تین ہفتے، چار ہفتے؟

چنانچہ سب کچھ بے روح ہندسوں میں ڈھلنے لگتا ہے۔ دو سو ہلاک ، پانچ سو زخمی، رات بھر میں ڈیڑھ سو فضائی حملے، چار ہسپتال، پندرہ ایمبولینسیں، تئیس لاکھ آبادی، دو لاکھ فوج، تین ویٹو، پانچ قراردادیں وغیرہ وغیرہ۔

اور پھر یہ اعداد بھی رفتہ رفتہ اہمیت کھو دیتے ہیں اور پھر جب بھی افغانستان ہو کہ کشمیر، فلسطین ہو کہ یمن یا شام۔کہیں سے بھی کتنی ہی اندوہناک خبر کیوں نہ آجائے۔ دل کہتا ہے بھائی کچھ کرو، دماغ کہتا ہے بیٹا چائے پیو اور کام سے کام رکھو۔ یہ تو روز کا سیاپا، ’رنڈی رونا‘ ہے۔ کسی اور جگہ دھیان لگاؤ اور گیان لو۔

اور پھر یہ نمبنیس یا بے حسی یا عام آدمی کی زبان میں ’بغیرتی‘ انفرادی نہیں رہتی بلکہ ادارتی و اجتماعی و عالمی ہوتی چلی جاتی ہے۔ ذہن میں عرب لیگ، اسلامی کانفرنس اور اقوامِ متحدہ جیسے ادارے ناچنے لگتے ہیں حالانکہ ان بچاروں کا اس طرح کی فضولیات سے نہ لینا ایک نہ دینا دو۔

مجھے سراج الحق صاحب ٹائپ رہنماوں کے پیارے پیارے تھن متھنو گگلو سے بیانات بہت اچھے لگتے ہیں۔

’کہاں ہیں وہ لوگ جو دن رات انسانی حقوق کا راگ الاپتے ہیں، عالمِ اسلام کب تک خوابِ غفلت سے جاگے گا، اسلامی حکمران آخر کب اتحاد کا مظاہرہ کریں گے، ہم کب تک ماؤں بہنوں کی چادریں تار تار اور گودیں اجڑتی ہوئی دیکھیں گے‘ وغیرہ۔

مزے کی بات ہے کہ بائیڈن سے محمد بن سلمان تک، اردوغان سے انوار الحق کاکڑ تک اور پوتن سے جنرل سیسی تک سب کے سب اس عالمی برادری کو تلاش کر رہے ہیں جو اپنا دباؤ ڈال کر جنگ بندی کروائے۔

حالانکہ سب اچھے سے جانتے ہیں کہ عالمِ اسلام ، اقوامِ متحدہ ، اسلامی کانفرنس یا بھوت ووت کچھ نہیں ہوتے ۔ یہ سب ہمارا وہم ہیں۔ مگر یہ وہ وہم ہے کہ جس کے پیچھے ہم سب اپنا ناکارہ وجود آسانی سے چھپا سکتے ہیں۔

تب بھی اندرونی کچوکے کم نہ ہوں اور ناقابلِ برداشت سی بے بسی یا گھٹن محسوس ہونے لگے تو پھر آڑے وقت میں کام آنے والے پرانے دوستوں کی طرح بچپن سے کان میں پڑنے والے مجرب جملے مچربوں کی مدد کو آتے ہیں۔ جیسے ارے کوئی ہے محمد بن قاسم، کوئی حجاج یا کم از کم طارق بن زیاد ہی۔ اے صلاح الدین ایوبی کہاں ہے تو؟ آج پھر عالم اسلام کو تیری ضرورت ہے۔

اچھا فرض کر لیں کہ آپ کی دعا قبول ہو جاتی ہے اور واقعی اصلی والے صلاح الدین ایوبی کا ظہورِ ثانی ہو جاتا ہے؟ تو پھر کیا ہوگا؟

دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کون کون بھائی ایوبی کے لشکر کا حصہ بننے کے لیے دوڑ پڑے گا؟

کم از کم میں تو نہیں جاؤں گا۔ بہت ہوا تو میں بھی ان ہزاروں جز وقتی جوشیلوں میں شمار ہوں گا جو صلاح الدین ایوبی پر گلاب کی منوں پتیاں نچھاور کریں گے۔

اتنے ہار پہنائیں گے کہ اس کی پیشانی چھپ جائے۔ ’قدم بڑھاؤ صلاح الدین ہم تمھارے ساتھ ہیں‘ کے نعروں سے فضا گونج اٹھے گی اور پھر ہم سب ’اسرائیل کی نابودی تک جنگ رہے گی جنگ رہے گی‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے کاندھوں پر سوار صلاح الدین ایوبی کو عمان، دمشق یا قاہرہ جانے والی پرواز پر بٹھا کے اپنا فرض نبھانے کا آنند لے کر گھر لوٹیں گے اور ٹی وی کے آگے بیٹھ جائیں گے۔

اب ہم فلسطینی تو ہیں نہیں کہ 1948 میں اپنے گاؤں سے بے دخل ہونے والے مرحوم دادے یا نانے کے گھر کی چابی بھی سینے سے لگا کے رکھیں اور مرتے وقت یہ چابی اپنے بیٹے کے حوالے کر کے جائیں تاکہ وہ اسے اپنے بیٹے کے سپرد کر کے رخصت ہو۔

ابو جہاد مرا دل لہو لہو ہے مگر

معاف کر کہ تیرے دشمنوں کے ساتھ ہیں ہم

ترا جنوں ترا ایثار محترم لیکن

جو سچ کہوں تو تیرے قاتلوں کے ہاتھ ہیں ہم

ہمیں تو ہیں وہ ستم گر کہ مصلحت جن کی

دراز دستیِ قاتل کا دل بڑھاتی ہے

ہم اس قبیلہ ِعشاق سے نہیں کہ جنہیں

ندیمِ دوست سے خوشبوِ دوست آتی ہے

( احمد فراز )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں