سابق وزیر اعظم عمران خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں منتقل ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی طرف سے انھیں اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے سے متعلق دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سُنایا جس کے بعد انھیں 26 ستمبر کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں منتقل کیا گیا۔
عمران خان اڈیالہ جیل میں سائفر مقدمے میں بطور ملزم قید ہیں جبکہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو دی جانے والی سزا کو اسلام آباد ہائیکورٹ پہلے ہی معطل کر چکی ہے۔
سائفر مقدمے میں دوسرے نامزد ملزم سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اڈیالہ جیل میں ہی قید ہیں تاہم عمران خان اور شاہ محمود کو الگ الگ بیرکوں میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں ملزمان کی ملاقات صرف اسی روز ہی ہوتی ہے جب اس مقدمے کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت کے جج اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے لیے جاتے ہیں۔
عمران خان کو کس سیل میں رکھا گیا ہے اور انھیں کیا سہولیات میسر ہیں؟
عمران خان کی لیگل ٹیم میں شامل شیر افضل مروت ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں جس کمرے میں رکھا گیا ہے اس کا سائز بارہ بائی دس ہے، یعنی یہ ایک بارہ فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا کمرا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے انھیں جس بیرک میں رکھا گیا تھا اس کا سائز اس موجودہ کمرے سے لگ بھگ نصف تھا تاہم اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کو دی جانے والی درخواست کے نتیجے میں کمرے کی دیوار کو توڑا گیا، اب یہ کمرہ یا بیرک بارہ فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی ہو گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ چالیس بائی اسی فٹ، یعنی لگ بھگ ایک کینال جگہ عمران خان کے لیے مختص ہے جہاں پر سابق وزیر اعظم چہل قدمی کرتے ہیں۔
شیر افصل مروت کے مطابق عدالتی حکم پر عمران خان کو ورزش کے لیے سائیکل بھی فراہم کر دی گئی ہے۔
جیل حکام کے مطابق عمران خان کے کمرے میں ٹی وی، چارپائی، کرسی اور میز بھی فراہم کیے گئے ہیں جبکہ اس بیرک میں پنکھا بھی لگا ہوا ہے۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ جب بھی سائفر مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوتی ہے تو عدالت عمران خان سے انھیں جیل میں ملنے والی سہولتوں کے بارے میں دریافت کرتی ہے اور جیل حکام کے بقول گذشتہ سماعت میں عمران خان نے انھیں ملنے والی سہولتوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ جیل میں قیدیوں کی ملاقات کے شیڈول کے مطابق سابق وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والوں کے بہت سے نام آتے ہیں جو انھیں بھیج دیے جاتے ہیں اور فیملی کے علاوہ جن سے وہ ملاقات کرنے کی خواہش رکھتے ہوں ان سے ملاقات کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس مقدمے کے دوسرے ملزم شاہ محمود قریشی کو جس کمرے میں رکھا گیا ہے وہ چھ بائی دس کا کمرہ ہے یعنی چھ فٹ چوڑا اور دس فٹ لمبا ہے۔
مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل منتقل ہونے سے پہلے شاہ محمود قریشی کو جب اس مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں لایا گیا تو انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں جس کمرے میں رکھا گیا ہے وہ جیل میں موجود پھانسی گھاٹ کے قریب واقع ہے اور ان کے کمرے کی کھڑکی اس طرف کُھلتی ہے جس طرف پھانسی گھاٹ واقع ہے۔
اس مقدمے کی پیروی کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے تحفظات کے باوجود انھیں کسی دوسری بیرک میں منتقل نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں متعلقہ عدالت کی طرف سے اس حد تک ریلیف ضرور ملا ہے کہ شاہ محمود قریشی کو میٹرس کی بجائے چارپائی فراہم کر دی گئی ہے۔
محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ چونکہ عمران خان اڈیالہ جیل میں ایک ملزم کی حیثیت سے ہیں اس لیے انھیں جیل میں وہی سہولتیں دی جا رہی ہیں جو جیل مینوئل کے مطابق ملزمان کو دی جاتی ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ عمران خان کے ایک سابق وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہیں اس لیے انھیں الگ بیرک میں رکھا گیا ہے جہاں پر ان کے ساتھ کوئی دوسرا ملزم نہیں رہ رہا۔
اہلکار کا کہنا ہے کہ جیل مینوئل میں بھی ہے کہ اگر کوئی ملزم دہشت گردی یا سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ہے تو اس کو بھی معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ملزمان کے ساتھ عام بیرکوں میں نہیں رکھا جاتا۔
انھوں نے کہا کہ جیل مینوئل کے مطابق جیل میں قیدیوں اور ملزمان کے لیے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جاتا ہے تاہم جیل قوانین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر وہ گھر سے کھانا منگوانا چاہتے ہیں تو ان کو گھر کا کھانا فراہم کیا جائے گا لیکن یہ عمل عدالتی حکم سے مشروط ہے۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو جیل کے اندر کھانا تیار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اس حوالے سے جیل میں موجود باورچی ہی کھانا تیار کرتے ہیں اور ملزم یا مجرم ان قیدیوں کو اس کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اٹک جیل میں جب بطور قیدی تھے تو اس وقت سپریم کورٹ کے حکم پر جیل حکام کی طرف سے ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی تھی جو عمران خان کو جیل میں دی جانے والی سہولتوں سے متعلق تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم کے مطالبے پر انھیں ہفتے میں دو مرتبہ دیسی چکن اور ہفتے میں ایک بار دیسی گھی میں پکا ہوا بکرے کا گوشت بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بہتر کلاس میں ہونے کی وجہ سے انھیں پی پی آر رولز 258 کے تحت اپنا کھانا تیار کرنے کا حق بھی حاصل ہے، اس کے مطابق مجرم کی مشاورت سے ڈائٹ مینو تیار کیا گیا ہے جس میں ناشتے میں بریڈ، آملیٹ، دہی اور چائے شامل ہے، روزانہ کی بنیاد پر موسمی پھل، مختلف تاریخوں پر دوپہر کےکھانے میں موسمی سبزیاں، روٹی، دہی، سلاد، دال چنا، دال ماش، مکس دال، رات کے کھانے میں چاول، دال، دہی، سلاد، یا چاول، دہی اور سلاد روزانہ کی بنیاد پر شامل ہیں۔
محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کا کہنا ہے کہ اگر سابق وزیر اعظم کسی اور کھانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو جو چیز جیل مینوئل سے مطابقت رکھتی ہو وہ انھیں فراہم کر دی جاتی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے کھانے پینے پر مہینے کا چالیس ہزار روپے تک کا خرچہ آتا ہے جو کہ پیشگی ادا کر دیے جاتے ہیں۔ عمران خان کی لیگل ٹیم میں شامل شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بھی سابق وزیر اعظم کی کھانے پینے کے معاملے میں وہی روٹین ہے جو اٹک جیل میں تھی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان پہلے سیاست دان نہیں جن کا جیل میں ٹرائل ہو رہا ہے۔ آج سے لگ بھگ 21 سال قبل سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور سابق صد آصف علی زرداری کا بھی اٹک قلعے میں ٹرائل ہو چکا ہے۔
حکومت کی طرف سے اٹک قلعے کو سب جیل قرار دیا گیا تھا جہاں پر ان سیاست دانوں کے خلاف نیب کیسز کی سماعت احتساب عدالت کے جج کرتے تھے۔