ایسے لگتا ہے کئی صدیاں گزر گئی ہیں، موسم سرما کا انتظار کرتے ہوئے، صبح آفس جانے کیلئے جب میں وارڈ روب کھولتا ہوں تو پاجامے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیںاور کرتے بھی بھاڑ سا منہ کھولے میرے انتخاب کے منتظر ہوتے ہیں، ٹھیک ہے ان کا بھی حق بنتا ہے، انہوں نے گرمیوں کے طویل دنوں اور طویل راتوں میں، لوڈشیڈنگ کے دوران بھی ہم آفت زدگان کا ساتھ نہیں چھوڑا، گرمی کی شدت نے انہیں پسینے میں شرابور کردیا جس کے نتیجے میں خود بھی بدمزہ ہوئے ہوں گے اور بدبو نے ہمارا جینا بھی دوبھر کردیا۔جن ماہ جبینوں کے بارے میں ہم ہذیان بکا کرتے تھے کہ ان کے قرب سے مشامِ جاں معطر ہو جاتا ہے، وہ جدھر سے گزرتے ہیں وہاں کے بام و درپھولوں کی خوشبو سے فضا کی ساری آلودگیاں اور ناک ہر قسم کی ناگوار کثافتوں سے محفوظ و مامون ہو جاتا ہے مگر موسم گرما کے دوران احساس ہوا کہ ان کا قرب بھی مشام جاں کو معطر نہیں کرتا بلکہ عذاب جاں بن جاتا ہے، پسینہ تو کسی کے حسن پر فریفتہ نہیں ہوتا، اس نے گرمی کی شدت میں آنا تو ہوتا ہی ہے اور فضا کو مکدر بھی کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ ان دنوں ہم نے نامی گرامی عشاق کو محبوب کی آمد کے حوالے سے یہ شعر پڑھتے دیکھا ہے۔؎
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ و گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
میر صاحب نے تو اس شعر میں بظاہر اپنی بدقسمتی کا رونا رویا ہے اور منکہ شارح میر ہوں ، اس سے یہی مطلب اخذ کرتا ہوں کہ پسینے میںشرابور محبوب جب جب عاشق کےپاس آتا ہے تو وہ اپنا ناک بند کرلیتا ہے اور دیکھتے ہی پرے پرے کہنے لگتا ہے، اور ہاں یہاں اپنا ذکر بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ میں کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہوں، پسینہ بلاامتیاز رنگ و نسل و مذہب وملت ہر ذی روح کو آتا ہے اور یوں میں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوں، تاہم میں گرد و نواح میں موجود دوستوں حتیٰ کہ منافقوں کو بھی بدبو کے ان بھبھوکوں سے محفوظ رکھنے کیلئے بازار سے مبلغ چار پانچ سو کی خطیر رقم سے پرفیوم خرید کر اور پورے جسم پر اس کا چھڑکائو کرکے گھر سے نکلتا ہوں مگر لگتا ہے سب کے ناک بند ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ اتنی مہنگی خوشبو کا ارد گرد کی فضا پر رتی بھر اثر نہیں ہوا، تب میں نے سوچا کہ محفل میں موجود کسی دوست کو جپھی ڈال کر چیک کرتا ہوں کہ اتنے قریب سے بھی کسی کو خوشبو آتی ہے کہ نہیںچنانچہ قریب ترین دوست کو میں نے گلے لگایا تو اس نے دھکا دے کر مجھے دور ترین کردیا، چلیں یہ تو اس کی بدذوقی تھی مگر اس نے مجھے کیوں پرے دھکیل دیا، جسے ہر وقت میرے قرب کی خواہش بے چین رکھتی تھی۔
موسم گرما کے حوالے سے یہ کہانی بہت دردناک اور بہت طویل ہے۔ اب موسم کچھ تبدیل ہوا ہے، لگتا ہے سردیوں کی آمد آمد ہے، چنانچہ میرے ماموں نے مجھے جو امپورٹیڈ سوٹ عطا کئے تھے اور وہ ہر سال اپنے بھانجے سے بے پناہ محبت کی وجہ سے ایسا ہی کرتے ہیں، وہ میں نے نکال لئے ہیں دراصل ان کی لنڈا بازار میں دکان ہے، چنانچہ جب بھی نئی گانٹھ کھلتی ہے وہ اس میںسے بہترین پیس میرے لئے نکال کر الگ کردیتے ہیںاور میں جب ان اعلیٰ اور پاکستان میں نایاب سوٹوں کی ادائیگی کیلئے بہت زیادہ ضد کرتا ہوں تو وہ ایک پیسہ منافع لئے بغیر میری ضد پوری کر دیتے ہیں، بہرحال اب صورت حال یہ ہے کہ میری وارڈ روب ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ برانڈ کے سوٹوں سے بھری پڑی ہے اور مجھ سے کہیں زیادہ سوٹ بے تاب نظر آتے ہیںکہ کب ان کی سنی جاتی ہے ۔ چنانچہ چند روز قبل میں نے محکمہ موسمیات کی اس پیش گوئی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ آج کا موسم گرمی کے حوالے سے سال کا بدترین دن ہوگا، لیکن جذبہ صادق ہو تو ایسی دھمکیوں کو کون خاطر میں لاتا ہے، سو میں نے گہرے کالے رنگ کا سوٹ اور اتنی ہی کالک بھری ٹائی نکالی شرٹ بھی کالی سیاہ تھی، میں اس منفرد ڈریسنگ کے بعد گھر سے نکلا،تیز دھوپ نے میرا رنگ بھی اس ڈریس کا ’’ہم نوا‘‘ کردیا، چنانچہ رستے میں کئی لوگ مجھ سے ٹکراتے ٹکراتے بچے کہ سر سے پائوں تک میری ہم رنگی کی وجہ سے وہ یہی سمجھے کہ کوئی سایہ ہے، اس کے پیچھے وہ شخص ہوگا جس کا سایہ ہے، مگر میرا خیال ہے وہ اندھے تھے، سیاہ لباس اور سیاہ رنگت اپنی جگہ مگر میرے بال تو سفید تھے وہ تو انہیں نظر آنا چاہئیں تھے، مگر ان لوگوں سےکیا گلہ جنہیں زندگی بھر ڈھنگ کے کپڑے نصیب نہ ہوئے ہوں، چنانچہ کسی کی خوش لباسی پر ان کا جلنا تو بنتا ہے۔
چلیں یہاں تک جو ہوا سو ہوا مگر موسم سرما کی چاپ تو بہرحال سنائی دے رہی ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ اب وہ پہلی سی سردی بھی کہاں، جب ہم بغلوں میں ہاتھ دبائے شوں شوں کرتے گھر سے نکلتے تھے، مجھے یاد ہے جب ہم وزیر آباد میں تھے اور اپنے ساتھ امرتسری کشمیری ملا جلا کلچر ساتھ لائے تھے، سردیوں میں ہم کانگڑی میں دہکتے کوئلے ڈال کر اسے اپنے ساتھ سلاتے تھے، اوپر سے لحاف بھی اوڑھا ہوتا تھا، اب یہ تو محض قسمت کی ستم ظریفی تھی ورنہ ایسی کوئی وجہ تو نہیں تھی کہ گاہے گاہے بستر کو آگ لگ جاتی، اگرہم اس وقت جاگ رہے ہوتے تو بستر کو فوری ’’طبی امداد‘‘ دی جاتی اور اگر سوگئے ہوتے تو تپش سے بہرحال جاگ تو جاتے تھے مگر ؎
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
والامعاملہ ہوتا تھا۔ وزیر آباد میں تو دریا ہمارے قرب و جوار میں بہتا تھا، درخت بھی بہت زیادہ تھے، آبادی بھی بہت کم تھی مگر اب ہم لاہور میں ہیں یہاں دریا سوکھا پڑا ہے، درختوں کا قتل عام ہو چکا ہے، آبادی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے، اوپر سے لاہوریوں کی خوراک ایسی واہیات ہے کہ پیٹ میں گیس کے فائر سرد موسم کو بھی گرم موسم میں تبدیل کردیتے ہیں، سو ان حالات میں سردی اپنا جوبن کیسے دکھائے۔ اس کے باوجود مجھے بہت شدت سے اس کا انتظار ہے کہ آخر ماموں جان کے گفٹ کئے ہوئے امپورٹڈ سوٹ کب سے میری نظر التفات کے منتظر ہیں، اللہ حاسدوں کی نظر بد سے محفوظ رکھے۔