قطر میں انڈین بحریہ کے سابق افسران کو ’پُراسرار مقدمے‘ میں سزائے موت انڈیا کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہو سکتی ہے؟

قطر میں انڈین بحریہ کے آٹھ سابق افسروں کی سزائے موت نے انڈیا کی کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا ہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے ان لوگوں کو دی گئی سزا پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ حکومت ہند اس فیصلے سے حیران ہے لیکن وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام قانونی راستے تلاش کرے گی۔

قطری عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کرنا اور اپنی بحریہ کے سابق ملازمین کو سزائے موت سے بچانا انڈیا کے لیے ایک بڑا سفارتی چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔

جن آٹھ افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے وہ انڈین نیوی کے سابق افسران ہیں۔

ان میں کمانڈر پورنیندو تیواری، کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن سوربھ وششٹھ، کیپٹن وریندر کمار ورما، کمانڈر سگناکر پکالا، کمانڈر سنجیو گپتا، کمانڈر امت ناگپال اور سیلر راگیش شامل ہیں۔ یہ لوگ ڈیفنس سروسز کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے۔

کمپنی کے لیے کام کرنے والے مذکورہ تمام لوگ انڈین بحریہ سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔

ان افراد کو گذشتہ سال 30 اگست (2022) کو قطر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت سے انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ ان افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت رواں سال 29 مارچ کو شروع ہوئی تھی۔

انھیں طویل عرصے تک جیل میں رکھنے اور موت کی سزا سنانے کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔

‘انڈین ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان سابق انڈین بحریہ کے افسران کے اہل خانہ کو بھی ان پر عائد الزامات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئی ہیں کہ آخر ان سب کے خلاف کس بنیاد پر مقدمہ شروع کیا گیا تھا۔

ایس جے شنکر
،انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر

مودی حکومت پر دباؤ بڑھا

انڈیا میں مودی حکومت پر اس معاملے میں مداخلت کے لیے دباؤ دیا جانے لگا ہے۔

کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر لکھا: ‘انڈین نیشنل کانگریس نے قطر میں انڈین بحریہ کے آٹھ سابق افسران سے متعلق انتہائی افسوسناک معاملے پر انتہائی دکھ، درد اور افسوس کے ساتھ نوٹس لیا ہے۔’

انھوں نے مزید لکھا: ‘ہمیں امید اور توقع ہے کہ حکومت ہند قطر کی حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی اور سیاسی اثر و رسوخ کو زیادہ سے زیادہ حد تک استعمال کرے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افسران کو اپیل کرنے میں مناسب تعاون حاصل ہو۔ نیز ان کی جلد از جلد رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔’

اسی دوران مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ٹوئٹر پر لکھا: ’پی ایم نریندر مودی کو تمام سابق اہلکاروں کو واپس لانا چاہیے۔ اگست میں، میں نے قطر میں پھنسے ہوئے بحریہ کے سابق افسران کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ آج انھیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ پی ایم مودی بڑی بات کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک ان سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ وہ سابق عہدیداروں کو واپس لائیں۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ انھیں سزائے موت کا سامنا ہے۔’

سینیئر صحافی شیلا بھٹ نے لکھا: ’جب انڈین حکومت نجی کمپنیوں میں کام کرنے والے بحریہ کے سابق افسران کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی تھی، تو قطر جھکنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ وہ اس کے ذریعے سودے بازی کرنا چاہتا ہے۔ قطر اس خطے میں ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر بڑا کھیل کھیل رہا ہے۔ اسے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ انڈیا کے مستحکم باہمی تعلقات پسند نہیں ہیں۔’

جن انڈین شہریوں کو موت کی سزا سنائی گئی ہے وہ دفاعی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی الظاہرہ گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز کے لیے کام کر رہے تھے۔

یہ کمپنی عمانی شہری خامس العجمی کی ہے۔ خامس رائل عمان ایئر فورس کے ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر ہیں۔ انھیں بھی ان آٹھ ہندوستانیوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم انھیں نومبر سنہ 2022 میں رہا کر دیا گیا۔

کمپنی کی ویب سائٹ
،کمپنی کی ویب سائٹ

کمپنی کیا کرتی ہے؟

کمپنی کی پرانی ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کمپنی نے البحریہ الامیری القطریہ یعنی قطر کی نیشنل بحریہ فورس (کیو ای این ایف) لیے تربیت، لاجسٹکس اور دیکھ بھال کی خدمات فراہم کی ہیں۔

نئی ویب سائٹ میں کمپنی کا نام الظاہر گلوبل ہے لیکن اس کی قطری بحریہ نیشنل فورس کو فراہم کی جانے والی خدمات کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی ان گرفتار سابق نیول افسران کا کوئی ذکر ہے جو اس میں قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے۔

کئی میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کمپنی فوجی آبدوزوں کی خریداری میں قطر حکومت کی مدد کر رہی تھی۔ تاہم ابھی تک اس کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔

انڈین بحریہ علامتی تصویر
،علامتی تصویر

انڈین نیوی کے سابق افسران کمپنی سے کیسے جڑے تھے؟

کمانڈر پورنیندو تیواری (جنھیں موت کی سزا سنائی گئی ہے) اس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔

انھیں ہندوستان اور قطر کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنہ 2019 میں پرواسی بھارتیہ سمان سے نوازا گیا تھا۔

انھیں قطر میں اس وقت کے انڈین سفیر اور قطر کی دفاعی افواج کے بین الاقوامی فوجی تعاون کے سابق سربراہ پی کمارن نے اعزاز سے نوازا تھا۔

اس تقریب کا اہتمام انڈین کلچرل سنٹر میں کیا گیا تھا۔ اس دوران انڈین سفارت خانے کے دفاعی اتاشی کیپٹن کوشک بھی تقریب میں موجود تھے۔

جن انڈینز کو سزا سنائی گئی ہے وہ اپنی گرفتاری سے قبل چار سے چھ سال تک الظاہرہ کمپنی میں کام کر چکے تھے۔

گرفتاری کیسے اور کیوں ہوئی؟

انڈین بحریہ کے جن سابق افسران کو موت کی سزا سنائی گئی ہے انھیں قطر کی خفیہ ایجنسی سٹیٹ سکیورٹی بیورو نے گرفتار کیا تھا۔

انڈین سفارت خانے کو ان کی گرفتاری کے بارے میں سب سے پہلے گذشتہ برس ستمبر کے وسط میں پتا چلا۔ 30 ستمبر کو ان لوگوں کو اپنے اہل خانہ سے مختصر وقت کے لیے ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت دی گئی۔

ایک ماہ سے زائد حراست میں رہنے کے بعد پہلی بار ان افراد کو قونصلر رسائی دی گئی ہے۔ اس دوران انڈین سفارت خانے کے ایک اہلکار نے ان لوگوں سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد اگلے چند ماہ تک گرفتار ہندوستانیوں کو ہر ہفتے اپنے اہل خانہ سے بات کرنے کی اجازت دی گئی۔

ان لوگوں کے خلاف الزامات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ سماعت کے دوران ہی الزامات لگائے گئے۔ نہ تو حکومت ہند اور نہ ہی قطر کی حکومت نے بحریہ کے ان سابق افسران کے خلاف الزامات کو عام کیا ہے۔

پریڈ
،علامتی تصویر

اہل خانہ کیا کہتے ہیں؟

گذشتہ سال گرفتاری کے بعد ایک انڈین ویب سائٹ نے گرفتار کمانڈر پورنیندو تیواری کی بہن ڈاکٹر میتو بھارگو اور کیپٹن نوتیج سنگھ گل کے بھائی نودیپ گل سے بات کی تھی۔

اس وقت ڈاکٹر میتو بھارگو نے مودی حکومت سے ان لوگوں کو رہا کرنے کی اپیل کی تھی۔ میتو بھارگو نے کہا تھا کہ ان کے بھائی ایک سینیئر شہری ہیں اور وہ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

63 سال کی عمر میں انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ وہ اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگا پا رہی ہیں کہ وہ کس مصیبت سے گزر رہے ہوں گے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ان کے بھائی پورنیندو تیواری نے جیل سے اپنی 83 سالہ ماں سے بات کی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کی حفاظت کو لے کر بہت پریشان ہیں۔

کیپٹن نوتیج سنگھ گِل کے بھائی نودیپ گِل نے بتایا تھا کہ انھیں اس وقت شک ہوا جب ان کے بھائی نے 6 ستمبر کو ان کی سالگرہ پر بھیجے گئے واٹس ایپ پیغام کا جواب نہیں دیا۔

بعد ازاں ان سے فون پر رابطہ بند ہو گیا۔ جب انھوں نے کمپنی سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ انھیں قطر کی سکیورٹی سروس نے گرفتار کر لیا ہے۔ نودیپ گِل نے کہا کہ ان کے بھائی ایک بیماری لاحق تھی۔

نودیپ نے کہا کہ ان کے بھائی نے ریٹائرمنٹ تک ہندوستانی بحریہ میں خدمات انجام دیں۔

اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے بھائی کو رہا کر کے انڈیا لائے۔ گذشتہ سال دسمبر میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ گرفتار انڈین شہریوں کو واپس لانا حکومت کی ترجیح ہے۔

مودی

انڈیا کے لیے کتنا بڑا چیلنج؟

یہ معاملہ انڈیا کے لیے کتنا بڑا سیاسی چیلنج ہے؟ اس معاملے کو حل کرنے اور اپنے سابق بحریہ کے افسروں کو رہا کرنے کے لیے انڈیا کیا کر سکتا ہے؟

اس کو سمجھنے کے لیے بی بی سی ہندی نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مدثر قمر سے بات کی۔

انھوں نے کہا کہ جب تک سفارتی سطح پر مذاکرات نہیں ہوتے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرے گا۔ البتہ اس سے انڈیا میں رائے عامہ پر اثر ضرور پڑے گا۔

انڈیا اور قطر نے ان سابق بحریہ افسران کے خلاف الزامات کو عام نہیں کیا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

قمر کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک حساس معاملہ ہے۔‘ جب ایسا حساس معاملہ ہوتا ہے تو دوستانہ تعلقات رکھنے والے ممالک بہت احتیاط برتتے ہیں۔ جس طرح سے دونوں ممالک نے کوئی فوری ردعمل نہیں دیا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ چونکہ سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے، اس لیے اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ یہ حساس معاملہ نہ ہو۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘چونکہ سزائے موت سنائی گئی ہے، یہ بات یقینی ہے کہ جن لوگوں کو سزا سنائی گئی ہے ان پر بہت سنگین الزامات ہیں۔ یا انھوں نے کوئی سنگین جرم کیا ہے۔’

دوحہ میں لاکھوں انڈینز کام کرتے ہیں
،دوحہ قطر میں لاکھوں انڈینز کام کرتے ہیں

کیا انڈیا کے لیے یہ بڑا سفارتی چیلنج ہے؟

اس کے جواب میں مدثر قمر کہتے ہیں: ’اسے سفارتی چیلنج کہنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ جو لوگ گئے وہ انڈین بحریہ کے سابق فوجی ہیں۔ لیکن وہ کسی سرکاری کام پر نہیں گئے تھے۔ وہ ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ اس لیے اسے سفارتی چیلنج کہنا مشکل ہے۔ اس کا کچھ سیاسی اور سفارتی اثر ہو سکتا ہے لیکن ابھی کہنا مشکل ہے۔

ان کے مطابق ‘چونکہ یہ معاملہ عدالت میں تھا اور اس پر کوئی عوامی معلومات شیئر نہیں کی گئیں لہٰذا خارجہ پالیسی کے مطابق اسے تحمل سے حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ انڈین حکومت کو پہلے فیصلے کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ وہ دیکھے گی کہ اس میں اپیل کا امکان ہے یا نہیں۔ اگر قطر میں اپیل کا امکان ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ کتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے کو بین الاقوامی عدالت میں لے جایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس معاملے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ بھی دیکھیں گی کہ آیا دونوں حکومتیں بات چیت کے ذریعے اسے حل کر سکتی ہیں۔‘

قطر میں انڈیا کے لوگ چھوٹے سے چھوٹا اور اہم کام بھی کرتے ہیں
،قطر میں انڈیا کے بہت سے لوگ ہیں

انڈیا اور قطر تعلقات

انڈیا اور قطر کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں۔ لیکن اس رشتے میں پہلا چیلنج جون سنہ 2022 میں اس وقت آیا جب بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے ایک ٹی وی شو میں پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا۔

اس دوران قطر پہلا ملک تھا جس نے انڈیا سے ’عوامی معافی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ قطر نے انڈین سفیر کو بلا کر اپنا سخت اعتراض درج کرایا تھا۔ اسلامی دنیا میں غصہ پھیلانے سے بچنے کے لیے بی جے پی نے فوری طور پر نوپور شرما کو برطرف کردیا۔

اب آٹھ سابق انڈین میرینز کی سزائے موت کو انڈیا قطر تعلقات کے لیے دوسرا بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ چونکہ قطر میں تقریباً آٹھ سے نو لاکھ ہندوستانی کام کرتے ہیں اس لیے انڈین حکومت کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کرے گی جس سے وہاں ان کے شہریوں کے مفادات کو نقصان پہنچے۔

انڈیا قطر سے قدرتی گیس بھی درآمد کرتا ہے۔ قطر قدرتی گیس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ پر اسرائیل کی بمباری جاری ہے اور قطر اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ ثالثی کی کوشش کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ امریکی یرغمالیوں کو حماس کی قید سے آزاد کرایا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں