بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں اتوار کے روز ایوب نیشنل سٹیڈیم کے باہر ایک نجی چینل کا کیمرہ مین ہاتھ میں ٹرائی پوڈ اٹھائے پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا اور وجہ تھی کہ پولیس اہلکار ان کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسہ گاہ کی جانب جانے نہیں دے رہے تھے۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعت بی این پی کا یہ جلسہ وڈھ سے کوئٹہ تک کی جانے والی لانگ مارچ کے بعد منعقد ہونا تھا جو پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل کے مخالفین کے مورچوں کو مبینہ طور پر خالی نہ کرانے کے خلاف کیا جا رہا تھا۔
اس مارچ کے اختتام پر بی این پی نے جہاں حکومت اورانتظامیہ پر جلسے کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ جیسے الزامات عائد کیے وہیں میڈیا کی بھی یہ شکایات سامنے آئیں ہیں کہ لانگ مارچ اور جلسے کی کوریج میں انھیں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم حکومت کی جانب سے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے موقف دیا گیا ہے کہ ’سٹیڈیم کے دروازوں کی بندش کی خبریں بے بنیاد ہیں۔‘
س کیمرا مین کو ایوب سٹیڈیم کے مرکزی دروازے سے داخل تو کروا دیا لیکن اس خوف سے کہ جلسہ گاہ میں داخل ہونے سے انھیں پھر نہ روکا جائے انھوں نے اپنے ’ٹرائی پوڈ‘ کو سٹیڈیم کے اندر ایک دکان میں رکھ دیا۔
لانگ مارچ کے شرکا ابھی تک کوئٹہ پہنچے ہی نہیں تھے کہ پریس کلب میں الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ انھیں محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے یہ فون آیا ہے کہ ’ڈپٹی کمشنرکوئٹہ نے لانگ مارچ اورجلسے کی کوریج سے منع کیا ہے اس لیے آپ لوگ اس کی کوریج نہیں کریں۔‘
جلسے کی کوریج سے روکنے کی مبینہ کوششوں سے نہ صرف ٹی وی چینلز کی براہ راست کوریج کرنے والی ڈی ایس این جیز سٹیڈیم میں موجود نہیں تھیں بلکہ خود میڈیا کے نمائندوں کی کم تعداد سٹیڈیم میں موجود تھی۔
ایک نجی چینل کے بیوروچیف نے بتایا کہ ان کا کیمرا مین جلسے کے کوریج کے لیے گیا تھا تو ان کو پولیس والوں نے روک دیا اور کہا گیا کہ حکام بالا کی جانب سے میڈیا کو اس جلسے کی کوریج کی اجازت نہیں ہے۔
اس صورتحال کے باعث بہت سارے نجی ٹی وی چینلز کے کیمرا مین جلسہ گاہ سے واپس لوٹ گئے۔
اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کا جلسہ کور کرنے والے ایک صحافی نے جلسہ شروع ہونے سے پہلے کی ایک ویڈیو دکھائی اور کہا کہ ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس ویڈیو کو چلاؤ اور بتاؤ کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا جلسہ فلاپ ہوگیا ہے۔‘
ڈپٹی کمشنراور ایس ایس پی آپریشنز کی بات چیت کے بعد کچھ میڈیا چینلز کے نمائندے اورکیمرا مین جلسے کی کوریج کے لیے جلسہ گاہ پہنچے۔
’پارٹی کے کارکن وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اورسابق رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے کارکنوں کو شہرمیں مختلف مقامات پرجلسہ گاہ میں آنے سے روک دیا گیا اور اس دوران میڈیا پر پابندی عائد کی گئی۔
پارٹی کے سابق رکن بلوچستان اسمبلی اخترحسین لانگو نے کہا کہ ’لانگ مارچ کو دو مقامات میں یہ کہہ کرروکنے کی کوشش کی گئی کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے راستہ بند ہے۔‘
جلسے کی راہ میں رکاوٹوں کے حوالے سے سردار اختر مینگل نے ایک ٹویٹ بھی کیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ’اگر جلسے کے لیے سٹیڈیم کے گیٹ نہیں کھولے گئے تو پارٹی کے کارکن وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔‘
جلسے میں اعلان کیا گیا کہ جب تک حکومت اورانتظامیہ کی جانب سے رکاوٹوں کو دورنہیں کیا جاتا تو اس وقت تک وہ جلسہ شروع نہیں کریں گے۔
تاہم اس اعلان کے بعد ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور ایس ایس پی آپریشنز نے سٹیج پر آ کر بی این پی کے رہنماؤں سے بات کی اور اس کے بعد رات نو بجے کے بعد جلسہ شروع کیا گیا۔
’پارٹی اراکین پارلیمنٹ 30 اکتوبر سے اسلام آباد میں دھرنا دیں گے‘
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ وڈھ کا مسئلہ قبائلی یا زمین کا نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا احتجاج ان کی ذات کے لیے نہیں بلکہ ان کے بقول ان ڈیتھ سکواڈزکے خلاف ہے جن کی وجہ سے بلوچستان میں کئی بچے یتیم اورکئی مائیں اور بہنیں بیوہ ہوگئی ہیں۔
’لانگ مارچ سے ایک دو روز پہلے حکومت اور انتظامیہ کے لوگ ان کے پاس آئے اور انھیں کہا کہ وہ لانگ مارچ کو ختم کریں کیونکہ راستے میں کالعدم داعش اور کالعدم تحریک طالبان سمیت دیگر تنظیموں کی جانب سے خطرات ہیں۔‘
ان کے مطابق ’میں نے ان کو کہا کہ میں نے داعش، طالبان یا سرمچاروں کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ آ کرمجھے یا بی این پی کے کارکنوں کو ماریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگرریاستی اداروں نے ہمیں مارنا ہے تووہ ہمیں کسی کالعدم تنظیم کے نام پرمارنے کی بجائے واہ فیکٹری میں بننے والے اپنے بارود سے مار دیں۔‘
انھوں نے کہا کہ انھیں یا بی این پی کے کسی کارکن کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ داری نگراں وزیراعظم، نگراں وفاقی وزیرداخلہ یا خفیہ اداروں پرعائد ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ڈرانے کے لیے کوئٹہ شہرمیں دفعہ 144 کے نفاذ کے علاوہ میرے خلاف مشرف دورمیں بننے والے کیسزکا جائزہ لیا جارہا ہے۔
’میں نے پولیس سے کہا میرے خلاف آپ جو کیسز بنا رہے ہیں ان میں سزا کی مدت زیادہ سے زیادہ دو ماہ ہے۔ کوئی تگڑا کیس بنائیں جس میں کم از کم پانچ سے 10سال کی سزا ہو۔‘
سرداراخترمینگل نے کہا کہ کسی قسم کی دھمکی سے ہم اپنے مطالبات سے دستبردارنہیں ہوں گے بلکہ ڈیتھ سکواڈز کے خاتمے اورلاپتہ افراد کی بازیابی تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
انھوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ’پارٹی کے تمام سابق اراکین پارلیمنٹ 30 اکتوبر سے اسلام آباد میں مطالبات کے حق میں دھرنا دیں گے۔‘
حکومت نے مظاہرین کو مکمل سکیورٹی فراہم کی: حکومتی موقف
دوسری جانب حکومت بلوچستان کی جانب سے ایوب اسٹیڈیم کے دروازوں کی بندش کی خبروں کو بے بنیاد قراردیا گیا ہے۔
ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کہا کہ ’بی این پی کے سربراہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی یا غیر تصدیق شدہ اطلاع دی گئی۔‘
ترجمان کے مطابق ’حکومت نے مظاہرین کو پوری سکیورٹی اور تحفظ دیا اورپورے راستے پر کسی بھی جگہ لانگ مارچ کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی۔‘
بلوچستان کے وزیراطلاعات جان محمد اچکزئی نے بی این پی کے لانگ مارچ کو بلا جوازقراردیتے ہوئے کہا کہ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا مخالفین سے زمین کا تنازعہ ہے۔
ان کا کہنا ہے ’حکومت نے وڈھ تنازعہ کے حل کے لیے باقاعدہ کمیٹی قائم کی جس کے دو بار اجلاس بھی ہوئے مگر کمیٹی کے اجلاس میں بی این پی کے کسی بھی ممبر نے شرکت نہیں کی۔‘
وزیراطلاعات نے دعویٰ کیا کہ وڈھ تنازع میں کئی افراد قتل ہوئے لیکن سردار اختر مینگل نے ان کے لواحقین سے تعزیت تک نہیں کی۔
وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کے مطابق ’عدالت عالیہ کے حکم پر امن وامان کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر قانون حرکت میں آئے گا۔‘