انڈیا کی ریاست راجستھان میں ایک جلی ہوئی گاڑی سے دو مسلمان مردوں کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد مقامی پولیس نے پانچ افراد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا ہے جو کہ مبینہ طور پر ’گاؤ رکشک‘ یعنی گانے کے محافظ نامی گروہ کا حصہ ہیں۔
مقتولین 25 سالہ ناصر اور 35 سالہ جنید آپس میں رشتے دار ہیں اور ان کے خاندان کے مطابق دونوں کو بدھ کے روز راجستھان کے بھرت پور ضلع سے اغوا کیا گیا تھا۔
لواحقین نے پولیس کو اپنی شکایت میں بتایا ہے کہ دونوں پڑوسی ریاست ہریانہ کے لوہارو میں مردہ پائے گئے تھے۔ ان کا الزام ہے کہ بجرنگ دل کے کارکنان نے دونوں کو اغوا کر کے زندہ جلایا جس کے بعد پولیس نے ہریانی کے پانچ نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا یہ باقیات ناصر اور جنید کی ہیں اور آیا دونوں کو زندہ جلایا گیا ہے یا گاڑی میں آگ لگنے سے ان کی موت ہوئی ہے۔
راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پولیس کو اس معاملے میں سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ہریانہ حکومت نے گائے کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس بنایا ہے۔ ’گاؤ سیوک‘ اور ’گاؤ رکشک‘ ان کا حصہ ہیں۔
اس ٹاسک فورس کا مقصد گائے کی غیر قانونی سمگلنگ اور ذبح کو روکنا، قانونی کارروائی کرنا اور آوارہ مویشیوں کو بچانا ہے۔
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے ان کی موت کا الزام ’پانچ گاؤ سیوکوں‘ پر لگایا ہے جن میں موہت یادو، جو کہ مونو مانیسر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، سب سے اہم ہیں۔
ناصر کے بھائی محمد جابر نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بھائی ’سسرال گئے تھے جب انھیں روکا گیا اور ہریانہ کی کرائم انویسٹیگیٹنگ ایجنسی (سی آئی اے) نے سامنے سے گاڑی کو ٹکر ماری اور پیچھے سے بجرنگ دل کے کارکنوں نے گاڑی کو ٹکر ماری۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’انھیں وہیں گاڑی سے کھینچ کر مارا گیا اور سی آئی اے کی گاڑی میں (ان کے گاؤں سے چند کلو میٹر دور) فیروز پور لے جایا گیا۔
’جہاں تھانے والوں نے انھیں حراست میں نہیں لیا، تو پھر انھیں لوہارو جنگل (راجستھان اور ہریانہ بارڈر) میں آگ لگائی گئی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’لوہارو میں کوئی شادی تھی جب گاڑی کا ٹائر پھٹا تو گاؤں والے باہر آئے۔ انھوں نے سوچا کہ شادی میں کسی نے پٹاخہ پھوڑا ہے، اور واپس ہو گئے۔ صبح جب گاؤں والوں نے دیکھا کہ گاڑی میں دو لاشیں ہیں تو پولیس کو اطلاع دی گئی۔‘
راجستھان پولیس نے کہا کہ متاثرہ خاندان کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نامزد افراد کو پکڑنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔
تاہم پولیس نے یہ بھی کہا کہ متاثرین میں سے ایک کے خلاف گائے کی سمگلنگ کے مقدمات پہلے سے درج ہیں۔
بھرت پور رینج کے انسپیکٹر جنرل گورو سریواستو نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’ابتدائی طور پر ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعہ اس طرح پیش آیا ہے کہ متاثرین میں سے ایک کے خلاف گائے کی سمگلنگ کے مقدمات درج تھے اور اس شبے کی وجہ سے مخصوص تنظیم کے چند افراد نے، جیسا کہ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے، انھیں اغوا کیا، ان پر تشدد کیا اور ممکنہ طور پر بھیوانی ضلع میں لاشوں کو ٹھکانے لگایا۔‘
تاہم خاندان کا دعویٰ ہے کہ تنظیم بجرنگ دل پولیس کی مدد سے کام کر رہا ہے۔
موہت یادو کون ہیں؟
موہت یادو ہندو دائیں بازو تنظیم بجرنگ دل کے ضلعی کوآرڈینیٹر ہیں جن پر کئی بار تشدد کا الزام لگ چکا ہے۔
وہ سنہ 2013 میں کالج کے دوسرے سال کے دوران بجرنگ دل میں شامل ہوئے تھے۔ وہ اور ان کی ٹیم دہلی کے قریبی علاقوں میں ’گائے کے محافظ‘ کے طور پر سرگرم ہیں۔
اکثر یادو اور ان کی ٹیم ان گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہیں اور اس پورے عمل کو لائیو سٹریم کرتے ہیں جن پر انھیں قانونی طور پر مویشی لے جانے کا شبہ ہوتا ہے۔
’سمگلروں‘ کو پکڑنے کے بعد یادو اور ان کی ٹیم بچائے گئے مویشیوں اور ملزمان کی تصاویر اپنے سوشل میڈیا پیجز پر پوسٹ کرتی ہے۔
گروپ کے کئی ممبران اکثر ان تصاویر میں اسلحے کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے انسٹاگرام پیج کے 28 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں اور یوٹیوب پیج ’مونو مانیسر بجرنگ دل‘ کے دو لاکھ سے زیادہ سبسکرائبر ہیں۔
یہاں اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ’زبردست انکاؤنٹر، گائے کے سمگلروں کی طرف سے گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔‘
اپنے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے یادو نے ’آلٹ نیوز‘ کو بتایا تھا کہ رات کی شفٹ میں کام کرنے والے لوگ جیسے کہ سکیورٹی گارڈز اور مقامی ڈیری ورکرز انھیں گائے کے مشتبہ سمگلروں کے بارے میں اطلاع دیتے ہیں۔
’ہم بدلے میں پولیس کو اطلاع دیتے ہیں جو موقع پر پہنچ جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر اگر پولیس نہیں پہنچتی ہے تو میں اور میری ٹیم اپنا کام کرتے ہیں اور پکڑے گئے افراد کو پولیس کے حوالے کرتے ہیں۔‘
مئی 2022 میں ’گاؤ رکشکوں‘ کی اسی علاقے میں ایک شخص کو بندوق کی نوک پر زبردستی کار میں لے جانے کی ویڈیوز وائرل ہوئی تھی۔
دو ماہ بعد جولائی 2022 میں یادو ایک مقامی مندر میں ایک پنچایت کے منتظمین میں شامل تھے جس میں کہا گیا تھا کہ علاقے میں ’مسلم دکانداروں اور دکانداروں کے معاشی بائیکاٹ‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
انھیں اکثر پولیس اہلکاروں کے ساتھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے، جن میں سے اکثر کو اب ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے حال میں ہی انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا کہ ’میں گائیوں کے آس پاس پلا بڑھا ہوں۔ میری آستھا (عقیدہ) ہے گاؤ ماتا سے اور میرا دھرم ہے ان کی حفاظت کرنا۔
’گائیوں کے خلاف مظالم کا مشاہدہ کرنے کے بعد میں نے انھیں بچانے اور مویشیوں کی غیر قانونی سمگلنگ کو روکنے کا عزم کیا ہے۔‘
اگرچہ وہ اپنی سرگرمیوں کے بارے میں کھلے عام سوشل میڈیا پر اعلان کرتے ہیں لیکن حالیہ معاملے میں انھوں نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ناصر اور جنید کی موت میں ملوث نہیں ہیں۔