عمران خان کے خلاف قائم کردہ مقدمات ان کے سیاسی کیریئر پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مختلف معاملات میں ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی پر عمل درآمد شروع ہے مگر اس بات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کون سے مقدمات عمران خان کے سیاسی کیریئر پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

اس میں توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پرعمران خان کے خلاف عدالتی کارروائی ہونے کےعلاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہیں جن میں اسلام آباد پولیس کافی متحرک نظر آ رہی ہے۔

عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں 22 مقدمات درج ہیں جن میں ایڈشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکیاں دینے کے علاوہ گذشتہ برس پچیس مئی کو وفاقی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں احتجاج، توڑ پھوڑ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور کار سرکار میں مداخلت کی دفعات کے تحت یہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے بدھ سے ’جیل بھرو تحریک‘ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے

ایڈیشنل جج کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا مقدمہ

یہ مقدمہ گذشتہ برس اگست میں تھانہ مارگلہ میں درج کیا گیا تھا اور اسلام آباد پولیس نے اس مقدمے میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے علاوہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کیا تھا۔

عمران خان نے ایک جلسے میں شہباز گل کو جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے پر اسلام آباد کی ایڈشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی تھی لیکن وہ اس مقدمے میں شامل تفتیش نہیں ہوئے تھے جس پر پولیس کی طرف سے ان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست دی گئی تھی۔ پھر عمران خان اس مقدمے میں شامل تفتیش ہوئے تھے۔

اس مقدمے میں اگرچہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کردیا گیا تھا تاہم سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کی دفعات ابھی موجود ہیں۔ پولیس نے اس مقدمے کا چالان متعلقہ عدالت میں پیش کردیا ہے تاہم ابھی تک عمران خان پر اس مقدمے میں فرد جرم عائد نہیں ہوئی۔

ضابطہ فوجداری کی دفعہ 506 کے تحت درج ہونے والے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا دو سال قید اور جرمانہ یا دونوں بھی ہوسکتے ہیں۔

جج کو سنگین نتائج کا دھمکیاں دینے کے معاملے پر ہی اس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی تاہم عمران خان کی طرف سے متعلقہ جج کی عدالت میں پیش ہوکر ان کی عدم موجودگی میں ان سے معافی مانگنے پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کردی تھی۔

عمران خان

توشہ خانہ ریفرنس: الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج پر مقدمہ

توشہ خانہ کے معاملے پر قومی اسمبلی کے سپیکر کے ریفرنس پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے پر عمران خان کے خلاف تھانہ سنگ جانی میں جو مقدمہ درج ہے اس میں کار سرکار میں مداخلت اور توڑ پھوڑ کے علاوہ انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔

اس مقدمے میں متعلقہ عدالت نے ملزم عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر رکھی تھی تاہم عدم پیشی کی وجہ سے انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کی عبوری ضمانت منسوخ کردی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت سے عمران خان کی عبوری ضمانت کی درخواست خارج ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس کافی متحرک ہو گئی ہے اور وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق اس مقدمے میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیمیں لاہور روانہ کر دی گئی ہیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت سے عمران خان کی عبوری ضمانت خارج ہونے کے بعد لاہور کے زمان پارک، جہاں پر عمران خان ان دنوں مقیم ہیں، میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے اور پارٹی قیادت کی طرف سے عمران خان کی حفاظت اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے ان کی ممکنہ گرفتاری سے بچانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنوں کو ہر وقت ایک قابل ذکر تعداد میں عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر موجود رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں بھی عمران خان کے وکلا نے حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تاہم ملزم خود عدالت میں پیش نہ ہوئے جس پر عدالت نے حفاظتی ضمانت خارج کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت کے لیے جو دستاویزات عدالت میں جمع کروائی گئی تھیں ان پر عمران کی طرف سے کیے گئے دستخطوں میں فرق آنے کی بنا پر سابق وزیر اعظم کو بیس فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

’سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے انسداد دہشتگردی کی دفعات کا استعمال‘

تھانہ سنگ جانی میں عمران ان کے خلاف درج ہونے والے انسداد دہشت گردی کے مقدمے کے علاوہ دیگر تمام مقدمات میں ان کی ضمانت منظور ہو چکی ہے اور وہ مختلف مقدمات میں ضمانتوں کی لیے عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں اور متعدد مقدمات میں متعقلہ عدالتوں نے کی عبوری ضمانتوں کی توثیق بھی کردی ہے تاہم ابھی تک ان کے خلاف کسی مقدمے میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس کی طرف سے ملزم کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد عمران خان کی طرف سے ایک تحریری درخواست ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر آفس کو موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مقدمے کے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات مضحکہ خیز ہیں اس لیے اس مقدمے میں ان دفعات کو ہذف کیا جائے۔

اپنے وکلا کے توسط سے جمع کروائی گئی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کی توہین ہے۔

اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کو سیاسی مخالفین کو دبانے اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

عمران خان نے اس درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ان کے خلاف درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات لگانا حکومت وقت کی طرف سے دہشت گردی کے معاملے میں غیر سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ابھی تک عمران خان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم نہیں کیا اور وہ ابھی تک اس مقدمے میں شامل تفتیش بھی نہیں ہوئے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس مقدمے میں جرم ثابت ہوگیا اور انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم نہ کی گئیں تو عمران خان کو سات سے دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

عمران خان

الیکشن کمیشن کا توشہ خانہ ریفرنس

توشہ خانہ سے گھڑیاں اور دوسرا سامان لے کر جانے اور انھیں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کرنے سے متعلق ریفرنس ضلعی عدالت کو بھیجا ہوا ہے۔

اسلام آباد کی عدالت نے عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کر رکھا ہے تاہم وہ ابھی تک عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

ٹیریئن وائٹ کو اپنے کاغزات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا کیس

عمران خان کے خلاف یہ معاملہ اگرچہ فوجداری دفعات کے تحت نہیں لیکن یہ ان کی اہلیت سے متعلق ہے اور درخواست گزار ساجد محمود کے بقول عمران خان نے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریئن وائٹ کو اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا تین رکنی بینچ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سماعت کر رہا ہے اور عدالت نے عمران خان کے وکیل سے یکم مارچ کو اس درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق جواب طلب کر رکھا ہے۔

عمران خان کے سیاسی کیریئر کے لیے سب سے زیادہ خطرناک یہی معاملہ ہے جس میں وہ تاحیات نااہل بھی ہوسکتے ہیں۔

عمران خان کے خلاف زیادہ تر مقدمات شہر میں ایک سو چوالیس کی خلاف، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور کار سرکار میں مداخلت کے درج ہیں اور یہ قابل ضمانت جرائم کی فہرست میں آتے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق کار سرکار میں مداخلت کا جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو دو سال قید اور جرمانہ اور یا پھر دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

پولیس کے علاوہ ایف آئی اے بھی متحرک

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج مقدمات کے علاوہ الیکشن کمیشن کی طرف سے پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں جو فیصلہ دیا گیا اس پر وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور اس وقت یہ معاملہ ایف آئی اے کی سپیشل کورٹ میں ہے۔

عمران خان پر گذشتہ برس نومبر میں ہونے والے حملے کے بعد متعلقہ عدالت کی جج نے ملزم کی طرف سے حاضری سے استثنی کی درخواستیں متعدد بار منظور کی ہیں لیکن گذشتہ سماعت جو کہ پندرہ فروری کو ہوئی تھی، میں عدالت نے عمران خان کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کردی تھی اور ملزم کو ہر حال میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے اس عدالتی فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور عدالت نے سپیشل کورٹ کو فروری تک اس بارے میں کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔

’ریاست گرفتار کرنا چاہے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا‘

ضابطہ فوجداری دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف زیادہ تر مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات عمران خان کے لیے لمحہ فکریہ نہیں لیکن عدالتیں ملزم عمران خان کو اس وقت تک ریلیف نہیں دیں گی جب تک وہ خود چل کر عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ بھی انھیں حفاظتی ضمانت دے سکتی ہے لیکن اس کے لیے ملزم کو خود عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ اگر ریاست کسی کو گرفتار کرنا چاہے تو کوئی بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے کہا کہ بےنظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بھی تو گرفتار کیا گیا تھا۔

شاہ خاور، جو کہ خود بھی لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ اگر قانون کی نظر میں تمام ملزمان برابر ہیں تو پھر عمران خان کو بھی اسی کیٹگری میں رکھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ وہ بہت سے ایسے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں جن میں عدالت نے ملزم کے کچھ تاخیر سے عدالت میں پیش ہونے پر ان کی عبوری ضمانت منسوخ کردی تھی اور پولیس کو حکم دیا تھا کہ ان کو گرفتار کرلیں۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے پیشہ وارانہ کیریئر میں دو ملزمان کے لیے عدالتوں کو انتظار کرتے ہوئے دیکھا ہے ان میں ایک مرحوم پرویز مشرف اور دوسرے عمران خان ہیں۔

واضح رہے کہ شاہ خاور اس لیگل ٹیم کا حصہ تھے جس نے الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں