انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’بُلڈوزر مہم‘: ’ہم جان دیں گے مگر زمین نہیں‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مقبول احمد اُن ہزاروں بے گھر کشمیریوں میں شامل ہیں جنھوں نے برسوں کی تلاش کے بعد شہر کی ایک جھونپڑ پٹی میں دو کمروں کا گھر تعمیر کیا۔

ایسی بستیوں کو حکومت کی طرف سے بجلی، پانی اور سڑکوں جیسی سہولت بھی میسر ہے لیکن گورنر انتظامیہ نے گزشتہ ماہ ’لینڈ گرانٹس ایکٹ‘ میں کئی ضابطوں کا اضافہ کر کے سبھی ’ناجائز‘ تعمیرات کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔

مقبول احمد کو بھی سرکاری نوٹس موصول ہوا اور اس نوٹس نے ان کی زندگی کو چالیس سال پیچھے دھکیل دیا۔ وہ ایک بار پھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔

حکومت کی طرف سے ’ناجائز‘ یا ’غیرقانونی‘ قرار دی جا چکیں تعمیرات کو گرانے کی مہم زوروں پر ہے اور ہر روز حکومت کے بُلڈوزر تعلیمی اداروں، دکانوں، مکانوں اور دیگر تعمیرات کو منہدم کررہے ہیں۔ اس نئی مہم کے تحت کسی کی دکان جا رہی ہے، کسی کا مکان اور کسی کی زرعی زمین۔

مقبول احمد سرینگر کی ’شاہین کالونی‘ میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری تین نسلیں یہاں رہ چکی ہیں۔ ہم کہاں جائیں۔ یہاں کے لوگ خاکروب یا مزدور ہیں۔ اگر 70 سال سے غیرقانونی نہیں تھا تو اب کیسے ہو گیا۔ پہلے حکومت نے کہا کہ غریبوں کو چھیڑا نہیں جائے گا لیکن ہم کو فون پر نوٹس بھیج دیا گیا اور سات دن کے اندر مکان خالی کرنے کا حکم ملا۔ یہ کون سا انصاف ہے۔‘

مقبول احمد

’بابا کا بُلڈوزر‘

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی لیڈر الطاف ٹھاکر اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’بابا کا بلڈوزر تو چلے گا، جن لوگوں نے غیرقانونی طور پر زمینیں ہڑپ کی ہیں، اُن سے واپس لی جا رہی ہیں، غریبوں کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔‘

جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے یہ اعلان بہت پہلے کیا کہ چند گز زمین پر بنے غریبوں کے مکان یا دکان متاثر نہیں ہوں گے لیکن ’بابا کا بُلڈوزر‘ ہر جگہ چل رہا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جموں اور کشمیر صوبوں میں ڈیڑھ لاکھ کنال کی سرکاری زمینوں پر مختلف لوگوں کا قبضہ ختم کیا گیا۔

کشمیر میں بُلڈوزر مہم

پاکستان سے آئے ہندو مہاجرین بھی متاثر

جموں کے آر ایس پورہ، کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع میں ہندووٴں کے ایسے 5700 خاندان رہتے ہیں جو 1947 میں تقسیم ہند کے وقت پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔

ان لوگوں کو کبھی بھی شہریت نہیں ملی تھی لیکن اگست 2019 میں جب کشمیر کی خود مختاری ختم کردی گئی تو انھیں باقاعدہ شہریت دی گئی۔

انھیں سرکاری زبان میں ’مغربی پاکستان کے مہاجر‘ کہا جاتا ہے لیکن حکومت کی مہم ان لوگوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

کٹھوعہ کے جمرال گاوٴں میں رہنے والی 80 سالہ سوما دیوی کہتی ہیں کہ ’ہم جب یہاں آئے تو یہاں جنگل اور جھاڑیوں کے بغیر کچھ نہیں تھا۔ ہم نے ان زمینوں کو سینچا، فصل اگائی اور یہی ہماری روزی روٹی ہے۔ ہم تو خوش تھے کہ دفعہ 370 ہٹائی گئی کیونکہ ہمیں شہریت ملی، ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہم غریبوں پر ہی آفت آئے گی۔‘

سوما دیوی کہتی ہیں کہ حکومت کو پہلے اُن کے لیے متبادل انتظام کرنا ہوگا تب ہی وہ اپنی زرعی زمینوں سے دستبردار ہوں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’حکومت کو کوئی حق نہیں کہ وہ اِن زمینوں کو سرکاری زمین قرار دے جن میں ہمارا خون اور پسینہ ہے۔ ہم جان دیں گے مگر زمین نہیں دیں گے۔‘

کشمیر میں بُلڈوزر مہم

خوف اور احتجاج

حکومت نے گزشتہ تین سال کے دوران 800 سے زیادہ وفاقی قوانین کو جموں کشمیر پر نافذ کر دیا ہے اور کئی مقامی قوانین میں نئے ضابطے بھی جوڑ دیے گئے ہیں۔ ان ہی قوانین میں ’لینڈ گرانٹس ایکٹ بھی ہے۔

نئے ضابطوں کے مطابق کوئی زمین یا عمارت اگر لیز پر دی گئی تھی تو حکومت یہ حق رکھتی ہے کہ وہ پراپرٹی واپس لی جائے۔ سرینگر، جموں اور دوسرے اضلاع میں تقریباً سبھی بڑی کمرشل عمارتیں لیز پر ہی تھیں۔

بعض مقامات پر سرکاری زمین پر کھڑی کی گئیں عمارتوں کو گرایا بھی گیا لیکن دونوں صوبوں میں لوگوں کا کہنا ہے کہ سابق وزرا، بڑے افسروں اور حکومت کے حامی تاجروں کی عمارات کو چھیڑا نہیں جا رہا تاہم گزشتہ ماہ سابق وزیر اور نیشنل کانفرنس کے رہنما علی محمد ساگر کے بنگلے سے ملحقہ آوٹ ہاوس کو بلڈوزر سے گرایا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تعمیر ناجائز طور پر حاصل کی گئی سرکاری زمین پر تھی۔

’بلڈوزر مہم‘ سے آبادیوں میں خوف ہے اور کئی علاقوں میں احتجاج بھی ہوئے۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ یہ زمینیں حاصل کر کے اِن کی نیلامی کی جائے گی اور پورے ملک کے دولت مند لوگ یہ زمین خرید لیں گے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان زمینوں پرعوامی سہولیات تعمیر کی جائیں گی، جن میں کھیل کود، تعلیم اور صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے شامل ہیں۔

کشمیر میں بُلڈوزر مہم

کیا یہ سیاسی حربہ ہے؟

معروف تجزیہ نگار ماجد حیدری کہتے ہیں کہ نئی دہلی نے مقامی سیاستدانوں کے لیے ایک انتخابی مدعا فراہم کرنے کے لیے بلڈوزر مہم چلائی جا رہی ہے۔

’دفعہ 370 پر تو اب کوئی سیاست نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے سیاستدانوں کے پاس لوگوں کو بتانے کے لیے کچھ نہیں، لہذا یہ توڑ پھوڑ ان ہی سیاستدانوں کو سیاسی اعتبار سے اہم رکھنے کے لیے ہے۔‘

ماجد کہتے ہیں کہ غریبوں کے گھر توڑنے اور کسانوں کی زمینیں چھین لینے سے عوام نئی دہلی سے دُور ہوں گے۔

’جموں کشمیر میں جو بڑے اور بااختیار لوگ ہیں، اُن کی عمارتوں یا گھروں پر کوئی اثر نہیں۔ یہ تو ایک سازش ہے تاکہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور بعد میں سیاستدان اُن سے وعدہ کریں کہ ووٹ کے عوض ان کے گھر محفوظ رہیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہی کشمیر میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے، سرکاری نوکریاں نہیں اور ’ایسے میں جب کاشت کاروں کی زمین اور گھر چھین لیا جائے گا تو لوگوں کے پاس احتجاج کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں