روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائی یاوہ گوئی اور چسکہ فروشی پر توجہ مرکوز رکھیں تو ہمیں ہرگز احساس نہیں ہوگا کہ وطن عزیز کے باسیوں کو مطمئن رکھنے سے کہیں زیادہ ہمارا ریاستی بندوبست معاشی اعتبار سے برقرار رکھنا دشوار تر ہو رہا ہے۔ دیوالیہ سے بچنا ہے تو ہمیں اس معاہدے کی ہر شق پر من وعن عمل کرنا ہوگا جو عمران حکومت کے دوران 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہوا تھا۔ مذکورہ معاہدے کی شرائط پر رضا مند ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مارچ 2021 میں وزیر خزانہ کے منصب سے ہٹادیا گیا تھا۔ان کی جگہ شوکت ترین آئے تو کہانی یہ پھیلائی گئی کہ پاکستان میں خوش حالی آ گئی ہے۔اس کی بدولت ہمیں آئی ایم ایف کی ”غلامی“ درکار نہیں رہی۔ ”آزادی“ کے خمار میں 2021-22 کا بجٹ تیار ہوا۔ فیصلہ ہوا کہ بجلی اور گیس کے نرخ مزید نہیں بڑھائے جائیں گے۔
نہایت رعونت سے منظور کروائے بجٹ پر عملدرآمد کو ابھی چار ماہ ہی گزرے تھے تو حکومت ”منی بجٹ“ لانے کو مجبور ہوگئی۔ اسے تیار کرنے سے قبل شوکت ترین واشنگٹن بھی گئے۔ واپس لوٹے تو ٹی وی کیمروں کے روبرو اعتراف کرنا شروع ہو گئے کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کا رویہ ”مخاصمانہ“ ہوچکا ہے۔”مخاصمت“ کے برملا اعتراف کے باوجود وزیر اعظم عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب کیا اور پیٹرول کی قیمتوں کو منجمد کرنے اعلان کردیا گیا۔بہلاوا ہمیں یہ دیا گیا کہ روس انتہائی سستے داموں ہماری طلب کے مطابق تیل فرا ہم کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں گندم کی کمی ہوئی تو یہ جنس بھی اس ملک سے مہیا ہو جائے گی۔
مشکلات میں گھرے عوام کی اکثریت ایک حوالے سے خود غرض ہو جاتی ہے۔ جی بہلانے کی داستانیں فی الفور تسلیم کر لیتی ہے۔اس حقیقت پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ روس نے تیل اور گندم کے حوالے سے ہمارے ساتھ محض طویل المدت بنیادوں پر کوئی بندوبست ڈھونڈنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جس کی بدولت مثال کے طور پر گزرے برس کے مارچ-اپریل سے روسی تیل سے لدے جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونا شروع ہو جاتے اور ٹینکر وہاں سے تیل اتار کر ملک بھر میں پھیلے پیٹرول پمپوں تک پہنچا دیتے۔
دریں اثناء عمران خان صاحب کی ماسکو میں موجودگی کے عین ایک دن بعد روس یوکرین پر باقاعدہ حملہ آور ہو گیا۔ اس کی جارحیت نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت آسمان کی جانب اٹھانا شروع کر دی ۔ یورپی ممالک کو فکر یہ لاحق ہوگئی کہ وہ اپنے ہاں تیل اور گیس کی طلب کیسے پورا کریں گے۔ جنگ طویل ہونا شروع ہوئی تو مزید فکر یہ لاحق ہوگئی کہ موسم سرما میں گھروں کو گرم کیسے رکھا جائے گا۔امریکہ ان کی فکر سے گھبرا کر اپنے ہاں ”دفاعی“ وجوہات کی بنا پر ذخیرہ ہوئے تیل کی ریکارڈ تعداد منڈی میں لانے کو مجبور ہوا۔ قطر جیسے ممالک منہ مانگی قیمتوں پر یورپ کے لئے گیس کی فراہمی یقینی بناتے رہے۔عالمی سطح پر جو کھیل شروع ہوا پاکستان اس میں اہم کردار کا حامل نہیں تھا۔اسی باعث اقتدار سنبھالتے ہی شہباز حکومت تیل کی قیمتیں بڑھانے کو مجبور ہوئی۔جو نرخ پیٹرول پمپوں کے لئے طے ہوئے وہ تب بھی عالمی منڈی میں طے ہوئے نرخوں کے مطابق نہیں تھے۔ ہمارے قلیل ہوتے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر سے حکومت بدستور عوام کے لئے تیل کی خریداری قابل برداشت رکھنے کے لئے امدادی رقوم فراہم کرتی رہی۔
قومی خزانے میں لیکن اب ”امداد“ کے لئے اضافی رقم موجود نہیں رہی۔ اسحاق ڈار صاحب کو امید تھی کہ ماضی کی طرح چند ”برادر“ ملک اب کی بار بھی ہمیں معاشی سہارا فراہم کرنے کورضا مند ہوجائیں گے۔ ان کی خوش فہمی نے ہمیں مزید مشکلات سے دوچار کر دیا۔ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہوئی شرائط پر کامل عمل درآمد کے سوا اب کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔پنجابی محاورے والی اکڑہم برقرار نہ رکھ پائے تو آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان آیا۔ وہ دس دنوں تک ہمارے ہاں رہا۔اپنے قیام کے دوران مذکورہ وفد نے واشگاف الفاظ میں پاکستان کو بتادیا کہ اس سے ایک ارب ڈالر کی ”امدادی رقم“ لینے کے لئے لازمی ہے کہ چند ”پیشگی اقدامات“ لیے جائیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں گرانقدر اضافے کا اعلان کرتے ہوئے چند ”پیشگی اقدامات“اٹھالئے گئے ہیں۔”بجٹ خسارے“ کو معقول حد تک رکھنے کے لئے اب ”منی بجٹ“ کے ذریعے مزید ٹیکس بھی لگانا ہوں گے۔
حکومت کی خام خیالی تھی کہ وہ ”منی بجٹ“ کو فی الفور ”آرڈیننس“ کے ذریعے لاگو کردے گی۔اس کا اجراء ہو جاتا تو رواں مہینے کے اختتام سے قبل آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہمارے لئے ”امدادی رقم“ فراہم کرنے کی منظوری دے سکتا تھا۔ مارچ کے ابتدائی دس دنوں میں ہمیں وہ رقم میسر ہوسکتی تھی جس کا بے قراری سے انتظار کیا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف کے ایوان صدر میں بٹھائے ”صدرمملکت“ نے مگر منگل کے دن ڈار صاحب سے ملاقات کے دوران مطلوبہ آرڈیننس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ بدھ کی سہ پہر شہباز حکومت ”منی بجٹ“ پارلیمان کے روبرو رکھنے کو مجبور ہوگئی۔روپیٹ کر شاید حکومت ”قبول ہے قبول ہے“ کی آوازوں کے ساتھ نئے ٹیکس لاگو کرتے منی بجٹ کی منظوری یقینی بنالے۔ اس کے عوض مگر اسے آئندہ انتخابات میں ووٹوں کے حصول میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔”ریاست“ بچانے کے لئے وہ اپنی ”سیاست کاملاً تباہ کرچکی ہوگی۔”صدر مملکت“ نے اپنی جماعت کے قائد کی خوشنودی کے لئے حکومت کو جھنڈی دکھائی تو حیرانی کی بات نہیں۔عارف علوی بہرحال عمران خان صاحب کے دیرینہ وفادار ہیں۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ جس ”ریاست“ کو بچانے کے لئے مسلم لیگ (نون) اپنی سیاست مسلسل تباہ کئے جارہی ہے اس کے چند کلیدی ادارے شہباز حکومت کی ”قربانیوں“ اور مشکلات کو سراہ بھی رہے ہیں یا نہیں۔اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلیں تو بآسانی طے کیا جاسکتا ہے کہ سراہنا تو دور کی بات ہے ”قربانی“ کا سرسری اعتراف بھی نہیں ہو رہا۔ ہمارے تحریری آئین پر عملدرآمد کا تقاضہ ہے۔
شہباز حکومت نے جس عجلت میں شکنجے میں اپنا سررکھا تھا اسے مزید کسا جا رہا ہے۔ میرے دل میں لیکن حکومت کے لئے ہمدردانہ جذبات بیدار نہیں ہو رہے۔ انگریزی کا You asked for it والا فقرہ ہی یاد آ رہا ہے۔ یاد رہے کہ گزرے برس کے آغاز سے اس کالم میں فریاد کئے چلارہا تھا کہ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے سے گریز کریں۔فارغ کرہی دیا تھا تو فوری انتخاب کا اعلان کریں۔ ان کے نتیجے میں آئی حکومت ہی ”سخت“معاشی اقدامات لینے کا حوصلہ دکھاسکتی تھی۔ہاتھ سے لگائی گرہوں کو اب دانتوں سے کھولنا ہو گا۔ گرہیں تو شاید اس کی وجہ سے کھل جائیں گی۔شہباز حکومت کے ”سیاسی دانت“ مگر اس کے بعد کسی اور کام جوگے بھی نہیں رہیں گے۔
(بشکریہ نوائے وقت)