سردار مہتاب کی للکار۔ گروپ بندی کا خاتمہ مریم نواز کے لیے بڑا چیلنج

2013 کے الیکشن سے پہلے جب سونامی کے زور سے تبدیلی کا جھکڑ چل رہا تھا ،تو کئی تناور سیاسی درخت جڑوں سمیت ٹھکانہ بدل رہے تھے، تبدیلی کا فیشن اتنا “ان” تھا کہ جسے آفر نہ ہوتی وہ خود کو قدرے احساس کمتری کا شکار سمجھنے لگتا۔ایسے میں نواز لیگ کے دو بڑے نام بھی انہی خبروں کی زد میں آئے۔ ان میں سے ایک کے پی سے سردار مہتاب عباسی اور دوسرے سندھ سے ممنون حسین تھے۔ہم نے اول الذکر سے رابطہ کیا اور تمہید کے بغیر سوال داغ دیا۔ ” سردار صاحب تحریک انصاف میں کب شامل ہو رہے ہیں “؟ انہوں نے بھی بلا تامل جواب دیا “شمولیت تو دور کی بات ،وہ مجھے پیشکش کی جرات بھی نہیں کر سکتے۔” مزید کسی تصدیق یا تردید کی ضرورت نہیں تھی۔حال احوال کے بعد اگلا فون ممنون حسین(بعد میں صدر مملکت) کو ملایا اورسردار مہتاب کے حوالے کے ساتھ وہی سوال کر دیا۔مرنجاں مرنج اور نستعلیق ممنون حسین نے پوچھا ، “تو سردار صاحب نے آپ کو کیا جواب دیا؟ ہم نے ان کا جواب دہرایا تو ہنس کر بولے ” بھائی ہم اتنی سخت بات براہ راست تو نہیں کر سکتے۔ سردار مہتاب دلیر آدمی ہیں ،ہم انہی کے الفاظ مستعار لے لیتے ہیں”

تو آخر ایسا کیا ہوا کہ اپنی جماعت اور قیادت کے ساتھ مشکل ترین وقت میں ڈٹ کر کھڑے رہنے والے اور مشرف کے دور ابتلا میں ڈھائی برس تک اٹک قلعے کی صعوبتیں برداشت کرنے والے سردار مہتاب عباسی کو اپنی ہی جماعت اور حکومت کے خلاف وہ سخت زبان استعمال کرنا پڑی جس کی کڑواہٹ اسلام آباد سے لندن تک محسوس کی گئی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ کھچڑی تو برسہا برس سے پک رہی تھی۔مہتاب عباسی صوبے کے تنظیمی معاملات میں مدا خلت قبول کرنے کو شروع ہی سے تیار نہ تھے،تاہم اگر کوئی شکایت پیدا ہوتی تھی تو وہ میاں نواز شریف کی ہدایت پر دور بھی کر لی جاتی تھی، بلکہ ایک مرحلے پر تو ان کی اور پیر صابر شاہ کی شکایت پر کیپٹن صفدر کی پارٹی رکنیت بھی معطل کر دی گئی تھی ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سردار مہتاب کو نواز شریف کا ہمیشہ سے کس درجے کا اعتماد حاصل رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ دو مرتبہ وفاقی وزیراور ایک بار مشیر ہوابازی بننے کے علاوہ گورنر اور وزیر اعلی کے اہم ترین مناصب پر بھی فائز رہے ہیں، جبکہ ایک مرتبہ تو ان کا نام صدر مملکت کے منصب کے لئے بھی زیر غور آیا۔مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ فہمی اور مروت کی راکھ میں دبی اختلاف کی چنگاری اپنی جگہ موجود رہی اور اس کو ہوا اس وقت ملی جب چند برس پہلے امیرمقام کو پارٹی کا صوبائی صدر بنایا گیا، جو اپنے ڈیل ڈول کی طرح بڑا سیاسی قد بھی رکھتے ہیں اور پارٹی پر بے پناہ مالی وسائل خرچ کرنے کے لئے بھی مشہور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امیر مقام چاہے اپنے حلقے میں کوئی جلسہ کریں یا صوبے میں کسی اور مقام پر انتظام ان کے ذمہ ہو، ہر سیاسی اجتماع پرانے والے کا ریکارڈ توڑ دیتا ہے۔آج کے سوشل میڈیا دور میں بھی سیاسی کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لئے جلسے جلوسوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لہٰذا امیر مقام بہت جلد پارٹی کی صفوں اور قیادت کے دل میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دوسری طرف سردار مہتاب اپنے مخصوص سیاسی مزاج کو جدید سیاسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ،چنانچہ اہم معاملات اور فیصلہ سازی میں انہیں ماضی کی طرح قیادت کی قربت حاصل نہ رہی۔تاہم  اپنے تجربے ، دانش مندی اور پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر ان کی اہمیت اپنی جگہ برقرار رہی اور پارٹی رہنماؤں کا ایک مضبوط گروپ ان کا ہم خیال بن گیا۔مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ نوازلیگ صوبے میں واضح دھڑے بندی کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں وہ جماعت جو ماضی میں سردار مہتاب اور پیر صابر شاہ کی وزارت اعلی کی صورت میں برسراقتدار رہی ہے،اب صوبائی اسمبلی میں اکلوتی سیٹ کی مالک ہے۔


مہتاب عباسی کے گروپ میں شامل معروف رہنماؤں میں ایک اور سابق وزیراعلی پیر صابر شاہ ، سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا، سابق سینیٹر بیرسٹر جاوید عباسی قابل ذکر ہیں جبکہ پارٹی کے صوبائی صدر امیر مقام کے گروپ میں صوبائی جنرل سیکریٹری اور وفاقی وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی، سابق وفاقی وزیر سردار یوسف اور دیگر شامل ہیں ، ذرائع کے مطابق بظاہر سردار گروپ میں شامل بعض رہنما بھی مرتضٰی گروپ سے رابطے میں ہیں، جو “مناسب وقت ” کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ اس گروپ کو کیپٹن صفدر کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے جس کا حاصل جمع خود مریم نواز اور میاں نواز شریف کی سرپرستی کی صورت میں نکلتا ہے۔ انتخابی حلقوں کے درمیان طویل فاصلے کے باعث سردار مہتاب اور امیر مقام کا براہ راست سیاسی تصادم تو نہیں بنتا، البتہ پچھلے چند برسوں میں مرتضی جاوید عباسی نے انہیں خاصا ٹف ٹائم دے رکھا ہے جو نا صرف ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ گزشتہ حلقہ بندیوں کے نتیجے میں دونوں کا قومی اسمبلی کا حلقہ ایک ہو گیا تھا اور ٹکٹ کے لئے قرعہ فال مرتضیٰ جاوید کے نام نکلا تھا جن کے والد حاجی جاوید عباسی ناصرف میاں نواز شریف کے دوست تھے بلکہ انہوں نے ایک بار ایبٹ آباد کی اپنی نشست سے نواز شریف کو الیکشن بھی لڑوایا تھا۔

اسی پرانے تعلوق کے پیش نظر مرتضیٰ جاوید کو گزشتہ دور حکومت میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا منصب دیا گیا تھا، جبکہ شہباز کابینہ میں بھی وہ وزیر پارلیمانی امور کے منصب پر فائز ہیں۔ اس دوران جہاں پارلیمنٹ میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا ،وہیں اپنے حلقہ انتخاب میں نچلی سطح تک عوام سے بھرپور رابطہ رکھا اور جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی پارٹی کو فعال کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف سردار مہتاب کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسی اور نوے کی دہائی میں جو عوامی رابطے ان کی سیاسی کامیابی کی ضمانت بنے، وہ اب طاق نسیاں کی نذر ہو چکے، اور سردار صاحب اب چند مخصوص لوگوں کے علاوہ شاذونادر ہی عوام کیلئے دستیاب ہوتے ہیں۔ سردار مہتاب نے اپنے علاوہ چچا زاد بھائی سردار فدا خان کو رکن قومی اسمبلی بنوایا، جبکہ دوسرے کزن سردار فرید خان اور بیٹےشمعون یارخان کو رکن صوبائی اسمبلی منتخب کرانے میں مدد دی، مگر ان کی سیاسی وراثت زیادہ موثر انداز میں آگے نہ بڑھ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں میئر ایبٹ آباد کے لیے سردارشمعون کی بھرپور مہم چلانے کے باوجود سردار مہتاب انہیں کامیابی نہ دلوا سکے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سردار مہتاب عباسی نے 2018 کے الیکشن میں این اے 15 ایبٹ آباد سے مرتضی جاوید عباسی کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کی تھی اور شنوائی نہ ہونے پر اپنا اور بیٹے کا ٹکٹ احتجاجا” واپس کر دیا تھا ، ان کے حامی اسے سردار مہتاب کے سیاسی کیریئر کی بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں جس نے نہ صرف انہیں سیاسی طور پر شدید نقصان پہنچایا بلکہ ہزارہ ڈویژن میں نواز لیگ کو دو واضح گروپوں میں تقسیم کردیا۔ سردار مہتاب نے حال ہی میں لندن جا کر اپنے قائد میاں نواز شریف سے ملاقات کی، جہاں گلے شکوے بھی ہوئے ہوئے، جس کے بعد وہ بڑی حد تک مطمئن لوٹے، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے چند روز میں امیر مقام کے دورہ لندن نے ترازو کا دوسرا پلڑا پھر جھکا دیا۔ اس کا اظہار دو روز قبل ایبٹ آباد میں مریم نواز کے ورکرز کنونشن سے خطاب کے موقع پر بھی ہوا، جہاں انہوں نے پارٹی کو متحرک رکھنے پر امیر مقام کی توخوب تعریف کی اور ان کے لندن دورے کا ذکر بھی کیا ،تاہم پارٹی میں بظاہر بھونچال کا سبب بننے والے سردار مہتاب عباسی کے تیز وتند حملوں کا حوالہ دینا بھی مناسب نہ سمجھا اور ان کے بیانات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔سردار مہتاب کے حالیہ بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے تین پہلو نظر آتے ہیں۔ ایک تو انہوں نے مہنگائی اور معاشی تباہی پر وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ، اس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا بلکہ یہ تو لیگی  کارکنوں سمیت ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ ان کی تنقید کا دوسرا ہدف پارٹی کے مخصوص لوگوں کا مفاد پرستانہ اور متکبرانہ طرز سیاست تھا، جس میں انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے عمومی رویے کی بات کرتے ہوئے نواز لیگ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، اس حصے سے بھی اصولی طور پر اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ تیسرے حصے میں انہوں نے صوبائی عہدے داروں کو نشانے پر رکھا اور پارٹی کے پنجاب تک محدود ہو جانے کی دہائی دیتے ہوئے کہا کہ نواز لیگ صوبے میں چار اضلاع تک محدود ہو گئی ہے اور اگر صوبائی قیادت کو فوری نہ ہٹایا گیا تو آئندہ الیکشن میں پارٹی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سردار مہتاب کی ساری گفتگو کا حاصل کلام یہی تیسرا حصہ تھا کیوںکہ صوبے اور بالخصوص ہزارہ ڈویژن میں انہیں اپنے سیاسی مستقبل کے امکانات محدود ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب مریم نواز پارٹی کی چیف آرگنائزر کی حیثیت سے تنظیم نو کا مینڈیٹ لے کر آئی ہیں۔کے پی اور بالخصوص ہزارہ ڈویژن میں تنظیم نو کی صورت میں امیر مقام کا گروپ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ان حالات کو بھانپتے ہوئے سردار مہتاب نے نہ صرف اس اہم ترین تقریب کا بائیکاٹ کیا بلکہ گولہ باری کے لیےاسی موقع کا انتخاب کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سردار مہتاب کے بائیکاٹ کے باوجود ان کے کزن اور سابق رکن صوبائی اسمبلی سردار فرید خان خشوع و خضوع کے ساتھ تقریب میں شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق سردار مہتاب اپنے صاحبزادے شمعون یار کیلئے ضلعی سطح پر بڑے عہدے کے خواہشمند ہیں ، جبکہ دوسرے گروپ کی کوشش ہے کہ یہ عہدہ فریدخان کو دے کر ایک تیر سے دو شکار کر لئے جائیں۔ طاہر ہے اپنے بھائی کی نامزدگی پر سردار مہتاب اعتراض بھی نہیں کر سکیں گے۔ اس مقصد کیلئے فرید خان کو خاص طور پر مریم نواز سے متعارف بھی کرایا گیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب تمام تر نادانیوں کے باوجود تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نواز لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے، کے پی میں پارٹی کی شیرازہ بندی کرنا اور اس کے کرچی کرچی وجود کو سمیٹ کر پرانا مقام دلانا مریم نواز کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ کیا سردار مہتاب جیسے قد آور اور ہیوی ویٹ سیاستدان کو سائیڈ لائن کرکے یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ اس کا جواب آنے والے دنوں اور ہفتوں میں سامنے آ جائے گا مگر رانا ثنا اللہ جیسے سینئر لیگی رہنما کا یہ موقف ہزارہ کے لیگی کارکنوں کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے کہ ہم نے مہتاب عباسی اور مرتضیٰ جاوید کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لی، لگتا نہیں کہ یہ دونوں ایک جماعت میں رہنے پر تیار ہوں گے ۔۔ پھر بھی ایک آخری کوشش ضرور کریں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں