گوتم اڈانی تئیس جنوری کو ایشیا کا پہلا اور دنیا کا تیسرا امیر ترین شخص تھا۔ چوبیس جنوری کو وہی اڈانی امیر ترین افراد کی عالمی فہرست میں آٹھویں نمبر پر آ گیا اور اس کی دولت اڈانی گروپ کے شیئرز گرنے کے سبب ایک ہی ہفتے میں ایک سو دس بلین ڈالر کم ہو گئی۔
کیونکہ عالمی کارپوریٹ سیکٹر کے ایک معروف تجزیاتی امریکی مالیاتی شارٹ سیلنگ ادارے ہنڈن برگ رپورٹ نے اڈانی کی کارپوریٹ ایمپائر کے بڑھاوے پر کچھ بنیادی سوالات اٹھا دیے جس سے تجارتی دنیا میں ہل چل مچ گئی۔
اس بار اڈانی گروپ پہلے کی طرح اپنے ناقدین کو کوئی بھی حربہ استعمال کر کے چپ کرانے میں کامیاب نہ ہو سکا اور نہ ہی وہ دولت کے تیز رفتار مشکوک ارتکاز اور گھپلے بازی کے بارے میں ہنڈن برگ رپورٹ میں اٹھائے بنیادی الزامات کا ٹھیک سے جواب دے پا رہا ہے اور نہ ہی اس رپورٹ کو عدالت میں چیلنج کر پا رہا ہے۔
بھارت میں جس جس فنانشل رپورٹر نے گزشتہ دس برس میں اڈانی گروپ کے معاملات میں گھسنے کی کوشش کی اسے ترغیب، دھونس، قانونی شکنجے، سیاسی دباؤ کے ذریعے خاموش کروا دیا گیا۔
انھی صحافیوں میں پر انجوئے ٹھاکر بھی ہیں۔ ان کا فون جدید ترین اسرائیلی جاسوس آلے پیگاسس کے ذریعے ٹیپ کیا گیا۔ پیگاسس سافٹ ویئر کوئی عام شہری یا نجی ادارہ نہیں صرف حکومتیں ِخرید سکتی ہیں۔ تو پھر پر انجوئے کی فون ٹیپنگ پیگاسس کے ذریعے آخر کس نے کروائی؟ پر انجوئے نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے بھی تحفظ مانگا مگر سپریم کورٹ نے بھی چپ سادھ لی۔
پر انجوئے نے ہنڈن برگ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیس برس پہلے گوتم اڈانی کا نام مجھ جیسے چند صحافیوں نے ہی سنا تھا۔ جس تیزی سے اس گروپ نے ترقی کی اس کے بعد کم ازکم بھارت میں تو کسی کو امید نہیں تھی کہ اڈانی کو زوال بھی آ سکتا ہے۔
اڈانی گروپ بھارت میں اتنے کم عرصے میں بہت کم تجربہ رکھنے کے باوجود گیارہ بندرگاہوں اور تیرہ ائرپورٹس کا انتظام چلا رہا ہے۔ نیز اسرائیل کی حیفہ پورٹ اور آسٹریلیا کی ایبٹ پوائنٹ بندرگاہ کا ٹھیکہ بھی اسی گروپ نے حاصل کر لیا۔
اڈانی نے اتنے مختصر عرصے میں بھارت کی کوئلہ انڈسٹری بھی اپنے نام کرلی۔ سرکاری ادارے کول انڈیا کے بعد جو نجی کمپنی سب سے زیادہ کانیں چلا رہی ہے وہ اڈانی کول ہے۔ اس ”تجربے“ کے بل بوتے پر آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں بھی گروپ نے کوئلے کی کچھ بڑی کانوں کے ٹھیکے پکڑ لیے۔
اڈانی گروپ بیرونِ ملک سے کوئلہ درآمد کرنے اور اس کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا نجی گروپ ہے۔ ریاست گجرات میں ہیروں کی کٹائی اور پالش کا سب سے بڑا کام بھی گوتم اڈانی کے بھائی ونود کے سسر جتن مہتا کے پاس ہے۔ خود جتن مہتا قرضوں کے بوجھ کی تاب نہ لاتے ہوئے بیرونِ ملک رہ رہا ہے اور اس کی کمپنی ونسم ڈائمنڈز سرکاری اداروں کی مقروض ہونے کے سبب سفید ہاتھی بن چکی ہے۔
جب سے ہنڈن برگ رپورٹ آئی ہے حزبِ اختلاف کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا ہے۔ ایک بار پھر کاروبار اور سیاست کا تعلق زیرِ بحث آ رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حزبِ اختلاف اڈانی کے معاملات اور نریندر مودی سے اس گروپ کی سانٹھ گانٹھ کی آزادانہ چھان پھٹک کا مطالبہ کر رہی ہے۔
ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی بھارت جوڑو یاترا سے واپسی کے بعد حزبِ اختلاف کے رہنما راہول گاندھی نے ”اصول پسند بھارت پسند“ مودی حکومت کو لوک سبھا میں آڑے ہاتھوں لیا۔ بقول راہول ”جنوب میں تامل ناڈو اور کیرالہ سے لے کے شمال میں ہماچل پردیش تک بس ایک ہی نام گونج رہا ہے اڈانی اڈانی۔ وہ جس مٹی کو بھی ہاتھ لگائیں تو سونا ہو جاتی ہے آخر کیسے؟ اب سمجھ میں آیا کہ اس نعرے کا اصل مطلب کیا ہے؟“ مودی ہے تو ممکن ہے۔ ”
دو ہزار چودہ میں اڈانی کے پاس آٹھ بلین ڈالر تھے۔ آج نو برس بعد ایک سو چالیس بلین ڈالر ہیں؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ آخر یہ چمتکار کیسے ہوا؟ دو ہزار چودہ میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اڈانی کا نام چھ سو نو نمبر پر تھا۔ آج تیسرے نمبر پر ہے۔ آخر کیسے؟ شمسی توانائی، کوئلہ، ائرپورٹس، بندرگاہیں اور اب ہماچل اور کشمیر کے سیب کی فصل پر بھی صرف اڈانی جی کی مہر کیسے؟
ہمیں کون بتائے گا کہ بھارت کی چھ بندرگاہیں چلانے کا ٹھیکہ دو ہزار اٹھارہ میں ایک ہی گروپ کو دینے کے لیے سرکاری ضابطوں میں کس کے کہنے پر تبدیلیاں کی گئیں اور جیسے ہی ٹھیکہ منظور ہوا یہ تبدیلیاں بھی واپس لے لی گئیں۔
بقول راہول گاندھی اڈانی جی اور مودی جی ایک ساتھ کتنی بار ایک ہی جہاز میں بیرونی ممالک کے دورے پر گئے۔ یا پہلے سے اس ملک میں موجود تھے؟ یا مودی جی کے فوراً بعد اس ملک میں گئے اور کوئی نہ کوئی موٹا تازہ کنٹریکٹ بھی مل گیا۔ ہمیں کون بتائے گا کہ بیس سال میں اڈانی جی نے بی جے پی کو کتنا چندہ دیا؟ ارے کوئی تو بتائے۔ ”
راہول گاندھی کے چیلنج کے جواب میں وزیرِ قانون کرن رجوجو نے یاد دلایا کہ نج کاری کانگریس کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ اور بندرگاہ کا پہلا نجی ٹھیکہ نوے کی دہائی میں کانگریسی حکومت نے جی وی کے کمپنی کو دیا تھا جس کا بندرگاہ کے معاملات چلانے کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا۔
راہول جی یہ بھی تو بتائیں کہ راجھستان کی کانگریسی ریاستی حکومت نے پچھلے سال اڈانی جی کو پینسٹھ ہزار کروڑ روپے کے منصوبے کس کے کہنے پر دیے۔ جنتا کو یہ بھی تو پتہ چلے کہ راہول جی کی ماتا سونیا جی اور جیجا جی رابرٹ ودھرا کن کن معاملات پر عدالت سے ضمانت پر ہیں؟
گوتم اڈانی نوے کی دہائی تک اوسط درجے کے گجراتی سرمایہ دار تھے۔ انھوں نے چھوٹے موٹے ٹھیکے لینے شروع کیے اور ایک چھوٹی سی ماہی گیر بندرگاہ مندرا کا انتظامی ٹھیکہ بھی حاصل کر لیا۔
دو ہزار دو میں گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی سے نہ صرف واجپائی جی کی مرکزی حکومت بلکہ انیل امبانی جیسے بڑے صنعت کاروں نے بھی کنی کترانی شروع کر دی۔ امریکا نے بھی مودی کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔
ایسے میں گوتم اڈانی نے کھل کے گجرات کو بھارتی ترقی کا شوکیس بنانے کے مودی مشن کی حمایت کی۔ تب سے دونوں کا ایک مضبوط اعتمادی تعلق قائم ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کے لیے دل اور وسائل کھول کے رکھ دیے۔
جب نریندر مودی وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے احمد آباد سے دلی پہنچے تو گوتم اڈانی کے نجی طیارے میں ہی گئے۔ یہ وہی طیارہ تھا جو انتخابی مہم کے دوران مودی جی کے مسلسل استعمال میں تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ میں اوپر تفصیل سے بتا چکا ہوں۔