ایک دوسرے سے ”اتفاقاً“ جڑے چند واقعات آپ کو بوکھلاہٹ سے دو چار کر سکتے ہیں۔ منگل کے روز میرے ساتھ ایسا ہی عالم رہا۔ ترکی اور شام میں آئے قیامت خیز زلزلے کی وجہ سے جی اداس تھا۔ کالم لکھنے کو درکار یکسوئی میسر نہیں تھی۔ اچانک یاد آیا کہ آج سے دو سال قبل ستارہ شناسی کے اسرار و رموز جاننے کی سنجیدہ کوشش کی تھی۔ اس کے ذکر سے کالم کا آغاز کر دیا اور موضوع سے بھٹک کر عالمی سطح پر نمودار ہوئی بے ثباتی اور افراتفری کی تفصیلات بتانے میں مصروف ہو گیا۔ کالم دفتر بھجوا دینے کے بعد اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر نگاہ ڈالی تو وہاں فرینک ہوگر بیٹ کا چرچا ہو رہا تھا۔ آسانی کے لئے اسے فرینک پکار لیتے ہیں۔
یہ صاحب خود کو نظام فلکیات کا ایسا شاہد بتاتے ہیں جو مختلف سیاروں کی حرکات کا ”جیومیٹری کے سائنسی“ اصولوں سے جائزہ لیتے ہیں۔ نیدرلینڈ یعنی ہالینڈ کے شہری ہیں۔ وہاں انہوں نے ایک تحقیقاتی ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے۔ میرے لئے وہ منگل کے دن تک گمنام تھے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے خبر اب مگر یہ ملی کہ فروری کا آغاز ہوتے ہی موصوف نے اپنے یوٹیوب چینل پر یہ پیش گوئی کردی تھی کہ اس ماہ میں پورا چاند جب برج اسد میں داخل ہو گا تو 4 اور 6 فروری کے درمیان ترکی کے مختلف شہر خطرناک زلزلے کی زد میں آسکتے ہیں۔
وہ بالآخر درست ثابت ہوا۔ زلزلے کی پیش گوئی سائنسی علوم کی بے پناہ ترقی کے باوجود ناممکن تصور ہوتی ہے۔ فرینک نے مگر نہ صرف اس کی ممکنہ تاریخوں اور ریکٹر سکیل پر شدت کا تعین کیا بلکہ ان علاقوں کی نشاندہی بھی کردی جو اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ اس کا ”تکا“ لگ گیا ہو گا۔ جو ”تکا“ لگا ہے اس نے دنیا بھر میں سوشل میڈیا صارفین کی کثیر تعداد کو یک دم فرینک کو ٹویٹر اور یوٹیوب پر فالو کرنے کو مجبور کر دیا ہے۔
میں بھی ان افراد میں شامل ہو چکا ہوں۔ منگل کی شب اس کی تیارکردہ تازہ ترین وڈیو بھی دیکھی ہے۔ اس کے ذریعے اس نے پورے چاند کے عطارد، مشتری اور یورینس سیاروں کے ساتھ ”گڑبڑ“ کو زلزلے کا سبب ٹھہرانے کی کوشش کی۔ وہ مصر ہے کہ چاند کا افلاک میں سفر ہمارے لئے زمین کو ”ساکت“ رکھتے نظام پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ پورے چاند کے سمندروں کی لہروں پر اثر کے عمل سے ہم تہذیبی طور پر واقف ہیں۔ زیر زمین ”پلیٹوں“ یا ستونوں پر اس کا اثر میرے لئے نئی بات تھی۔
معاملہ تاہم بہت گمبھیر ہے۔ فرینک کے خیالات کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد ہی میں سادہ الفاظ میں اس کی ”تھیوری“ بیان کر سکتا ہوں۔ اس کے خیالات کی تائید یا نفی میرے بس سے باہر ہے۔ قارئین کی اکثریت مجھ سے ویسے بھی سیاسی موضوعات پر خامہ فرسائی کی توقع باندھتی ہے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک اور ”اتفاق“ کا ذکر بھی لازمی ہے۔ پیر کی رات کھانے کے دوران میرے ایک بہت ہی قریبی عزیز اس امر کی بابت تلملاتے رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف مصیبت کی اس گھڑی میں یکجہتی کے اظہار کے لئے فی الفور ترکی کیوں جانا چاہ رہے ہیں۔
اصرار کرتے رہے کہ ترکی کے صدر اور دیگر اعلیٰ حکام اس وقت اپنی توجہ ملبے میں دبے افراد تلاش کرنے پر مرکوز رکھے ہوں گے۔ پاکستان کے وزیراعظم وہاں پہنچ گئے تو ”پروٹوکول“ فراہم کرنے کا تردد برداشت کرنا ہو گا۔ منگل کی دوپہر طویل عرصے کے بعد مگر ترکی میں مقیم دو صحافیوں کے واٹس ایپ پیغامات آئے۔ ان میں سے ایک سے پہلی ملاقات عراق میں ہوئی تھی جب دنیا بھر کے تقریباً ایک سو سے زیادہ صحافیوں کو صدام حکومت نے اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔
آٹھ برس تک پھیلی ایران، عراق جنگ کے اختتام کے بعد عراقی حکومت ہمیں یہ دکھانے کو بے چین رہی کہ وہ حیران کن رفتار سے جنگ سے متاثرہ علاقوں میں زندگی کی رونقیں واپس لے آئی ہے۔ عراق کے مختلف شہروں کے دس دنوں تک مسلسل دورہ کرتے ہوئے چند غیر ملکی صحافی میرے بے تکلف دوست بن گئے۔ میں لاہوری پھکڑپن سے ان کا جی بہلاتا رہا۔ ترکی سے آیا صحافی مگر بہت سنجیدہ اور کم گو شخص تھا۔ جہاز اور بس کے سفر کے دوران تاہم میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کو ترجیح دیتا۔
اسے گفتگو کو مائل کرنا دشوار تھا۔ ڈھٹائی سے مگر اسے ذرا کھلنے کو مجبور کر دیا۔ وہ کھلا تو معلوم ہوا کہ عراق میں اس کی اصل دلچسپی مختلف صوفیا کے مزارات پر حاضری دینا ہے۔ سرکاری بریفنگز سے فراغت کے بعد وہ مجھے اپنے ہمراہ وہاں لے جاتا اور ان صوفیوں کی زندگی سے وابستہ واقعات انتہائی عقیدت سے بیان کرنے میں مصروف رہتا۔ اس کی عقیدت نے بالآخر آشکار کیا کہ وہ ترکی کے ”سیکولر“ نظام کو ناپسند کرتا ہے۔ ان دنوں اپنے ملک میں تیزی سے پھیلتی ”اسلامی تحریک“ سے وہ بہت امید باندھے ہوئے تھا۔
عراق جانے کے تقریباً دس برس بعد مجھے ترکی میں ہوئے عام انتخاب کی کوریج کے لئے مدعو کیا گیا۔ اس کی بدولت چار دنوں تک انقرہ اور اس کے نواحی قصبات میں گھومتا رہا۔ عراق میں متعارف ہوا ترک دوست اسی شہر کے ایک بڑے اخبار سے وابستہ تھا۔ یہ اخبار اس جماعت کا ”ترجمان“ تصور ہوتا تھا جو اردوان کی بنائی جماعت سے قبل ”فضیلت پارٹی“ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ نجم الدین اربکان اس کے رہ نما تھے۔ ان کی حکومت کو مگر ”سیکولر فوج“ نے چلنے نہیں دیا۔
نجم الدین اربکان کے بعد ترکی کے سیاسی افق پر اردوان نمودار ہوئے تو میرا دوست ان کے قریبی صحافیوں میں شامل ہو گیا۔ میں یورپ کے کسی ملک جاتے ہوئے دو یا تین روز استنبول میں ہر صورت ٹھہرنا چاہتا ہوں۔ اسے فون کرتا تو نہایت محبت سے انقرہ سے استنبول آ جاتا اور میری خاطر مدارت میں مصروف رہتا۔ اردوان کے عروج کے ساتھ اس نے بھی اپنے صحافتی کیرئیر میں بہت ترقی پائی۔ میں اسے چھیڑنے کو ”اردوان کا چمچہ“ پکارتا ہوں۔ وہ صوفیانہ مسکراہٹ سے اسے برداشت کر لیتا ہے۔
منگل کی دوپہر اس کا واٹس ایپ پر لکھا پیغام مگر میرے لئے حیران کن تھا۔ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش میں لکھا یہ پیغام جاننا چاہ رہا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم فی الفور ترکی کیوں آنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے یہ لکھ کر بات ختم کردی کہ ”ادنہ تباہ ہو گیا ہے“ ۔ یاد رہے کہ یہ ترکی کے جنوب میں واقع ایک شہر کا نام ہے۔ وہاں کے ہاتھ سے کاٹے اور پیسے قیمہ سے بنائے کباب بہت مشہور ہیں۔ انہیں ”ادنہ کباب“ پکارتے ہیں۔
ترکی کے تمام بڑے شہروں میں یہ کباب بیچنے والوں کی بہت دکانیں ہیں۔ استنبول میں بھی یہ کباب بنانے والا ایک مشہور ریستوران ہے۔ وہاں کے کباب نواز شریف صاحب کے بہت پسندیدہ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ اکثر انہیں لندن میں بھی استنبول سے منگواتے رہتے ہیں۔ میرے دوست نے اگرچہ اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی جانب سے ”ادنہ“ کی تباہی کی ”خبر“ میں لیکن یہ طنزیہ پیغام چھپا تھا کہ شاید وزیر اعظم شہباز شریف مصیبت کی اس گھڑی میں ”ادنہ کباب“ کھانے ترکی آرہے ہیں۔
منگل کی رات ترکی کی ایک جوا ں سال صحافی نے جو کئی رشتوں سے ”پاکستانی“ بھی ہیں ٹویٹر پر ایک پیغام لکھا۔ نہایت خلوص سے اس کے ذریعے پیغام انہوں نے یہ پہنچانے کی کوشش کی کہ ترکی آنے کے بجائے وزیر اعظم پاکستان زلزلہ زدگان کی تلاش اور بحالی کے عمل میں حصہ ڈالنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ماہرین اور سامان وہاں بھجوانے کی کوشش کریں۔
ترکی سے یکے بعد دیگرے وہاں مقیم صحافیوں کے جو پیغامات آئے انہوں نے مجھے حیران و پریشان کر دیا۔ ان کے ذریعے جن خیالات و جذبات کا اظہار ہوا ان کا علم ہمارے وزیر اعظم کو ازخود ہونا چاہیے تھا۔ ترکی اور وہاں کی قیادت شہباز شریف صاحب کے لئے اجنبی نہیں۔ فوری دورۂ ترکی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں پریشان نہیں کرنا چاہیے تھا۔ غالباً ان کے دورے کے اعلان کے بعد وہاں مقیم ہمارے سفارتی نمائندوں کے ذریعے وزیر اعظم کے دفتر کو ویسے ہی جذبات وخیالات پہنچائے گئے جو مجھ جیسے گوشہ نشین صحافی کو ترکی میں مقیم چند صحافیوں نے ذاتی حیثیت میں بھیجے تھے۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ منگل کی رات خبر آ گئی کہ شہباز صاحب نے دورۂ ترکی منسوخ کر دیا ہے۔ کاش وہ اس کا اعلان بھی نہ کرتے۔