نواز شریف کی واپسی پھر کھٹائی پڑ گئی

نواز شریف کی واپسی ایک بار پھر کھٹائی میں پڑگئی ہے۔ لہٰذا یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ پنجاب میں الیکشن ہونے کی صورت میں نون لیگ کو اپنے قائد کے بغیر میدان میں اترنا پڑے۔ دوسری جانب پارٹی کی تنظیم نو اور کارکنان کو متحرک کرنے کے حوالے سے مریم نواز کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی کے ارکان یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس مہنگائی کے طوفان میں وہ اپنے حلقوں میں جاکر انتخابی مہم کیسے چلاسکیں گے۔

واضح رہے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے نواز شریف کی لندن سے واپسی سے متعلق نصف درجن کے قریب پروگرام بن چکے ہیں۔ تاہم اب تک کسی پروگرام پر عمل نہیں کیا جا سکا ہے۔

اس سلسلے میں تازہ بیان نواز شریف کی صاحبزادی اور پارٹی کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر مریم نواز کی جانب سے آیا۔ قریباً ڈیڑھ ہفتہ قبل انہوں نے کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف جلد پاکستان آئیں گے۔ اگرچہ انہوں نے واپسی کی کوئی تاریخ نہیں دی۔ تاہم نون لیگی ذرائع مارچ کے مہینے میں سابق وزیر اعظم کی واپسی کا اشارہ دے رہے تھے۔ تازہ معلومات کے مطابق اگلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران نواز شریف کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔

لندن اور پاکستان میں موجود نون لیگی ذرائع نے تصدیق کی کہ پہلے یہ پروگرام ترتیب پا گیا تھا کہ اگر پنجاب میں الیکشن نوے روز کے اندر کرانے پڑجاتے ہیں تو اس سے قبل نواز شریف پاکستان آجائیں گے۔ تاکہ پارٹی کے سب سے مضبوط قلعے میں جیت کا امکان روشن کر سکیں۔ تاہم اب یہ فیصلہ ملتوی کر دیا گیا۔ یوں قومی اسمبلی کے انتخابات سے قبل اگر پنجاب میں الیکشن کا مرحلہ آجاتا ہے تو نون لیگ کو اپنے قائد کے بغیر میدان میں اترنا پڑے گا۔ لہٰذا اب سارا بوجھ مریم نواز کے کاندھوں پر آگیا ہے۔ اسی لیے نون لیگ کی کوشش ہے کہ تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کر دی جائے۔ اور ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں۔ کیونکہ پارٹی میں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں۔ ملک میں عام انتخابات سے قبل نواز شریف ہر صورت واپس آئیں گے۔

ذرائع کے مطابق نواز شریف کی واپسی کا تازہ پروگرام کھٹائی میں پڑنے کی وجہ بھی وہی ہے۔ جو اس سے قبل بنتی رہی ہے۔ نون لیگی قیادت کو امید تھی کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر متفرق درخواستوں کی سماعت جلد شروع ہو جائے گی۔ جس میں فیصلہ کیا جانا ہے کہ نااہلی تاحیات ہونی چاہئے یا اس کی مدت پانچ برس تک کر دی جائے۔

اگر نااہلی کی مدت محض پانچ برس تک محدود کرنے کا فیصلہ آجاتا ہے تو اس کے پہلے بینیفشری نواز شریف ہوں گے۔ کیونکہ وہ یہ مدت گزار چکے ہیں۔ تاحیات نااہلی ختم کرانے کے حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان بھی فریق ہے۔ وکلا کی تنظیم نے دسمبر دو ہزار اکیس میں ارکان اسمبلی کی تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی ختم کی جانی چاہیے اور یہ کہ اس نااہلی کا اطلاق انتخابی تنازعہ کی صورت میں ہونا چاہئے۔ تاہم یہ درخواست، جس سے نون لیگی قیادت کی خاصی توقعات وابستہ ہیں، تاحال سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ بلکہ گزشتہ برس سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے متعدد اعتراضات اٹھاتے ہوئے اس آئینی درخواست کو واپس کر دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ یہ معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ کے بڑے بنچ کے پانچ جج طے کر چکے ہیں۔

ادھر پارٹی کی تنظیم نو کا ٹاسک لے کر لندن سے پاکستان پہنچنے والی مریم نواز کو خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ لاہور میں موجود پارٹی کے ایک اہم عہدیدار نے بتایا کہ چند روز پہلے مریم نواز نے اپنی پارٹی کے متعدد سابق ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی، جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ ان میں سے کئی ارکان کا پارٹی کی چیف آرگنائزر سے شکوہ تھا کہ ’’ہم کس منہ سے اپنے انتخابی حلقوں میں جائیں گے۔ عام آدمی تو اپنی جگہ۔ مہنگائی کے طوفان نے پارٹی کے ووٹرز و سپورٹرز کو بھی بد دل کر دیا ہے۔ جو لوگ پہلے عمران خان کی حکومت کو برا بھلا کہتے تھے۔ اب نون لیگ کی موجودہ حکومت کو کہہ رہے ہیں‘‘۔

اس میٹنگ کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ مریم نواز کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ وفاقی حکومت عوام کو ریلیف دلانے کے مختلف آپشنز پر کام کر رہی ہے۔ جلد اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے پارٹی ارکان کو دلاسا دیا کہ جلد نواز شریف خود ان سے رابطہ کر کے مستقبل کا لائحہ عمل دیں گے۔

ذرائع کے مطابق پارٹی کنونشنز کے علاوہ مریم نواز نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام سابق ارکان صوبائی اسمبلی اور موجودہ ارکان قومی اسمبلی سے تفصیلی میٹنگز کا پروگرام ترتیب دے رکھا ہے۔ تاکہ انتخابی میدان میں اتارنے سے پہلے انہیں متحرک کیا جا سکے۔ نواز شریف سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان ارکان کا رابطہ کرانا بھی اسٹرٹیجی کا حصہ ہے۔ اسی طرح پارٹی کے ناراض مقامی عہدیداران اور سرگرم کارکنوں سے بھی مریم نواز ملاقاتیں کریں گی۔ لیکن اس ساری مہم جوئی کے سلسلے میں انہیں ابتدا سے ہی اس سوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ ’’مہنگائی کے ستائے عوام سے ووٹوں کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘۔

اس صورتحال میں پارٹی کی تنظیم نو اور کارکنوں کو متحرک کرنا، مریم نواز کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ نون لیگ کے اپنے ذرائع بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر نواز شریف کی غیر موجودگی میں پارٹی کو سب سے بڑے صوبے میں الیکشن لڑنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو یہ مریم نواز کے لئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہوگا۔ مہنگائی کے بوجھ تلے عوام اور سپورٹرز کو پارٹی کی طرف راغب کرنے میں اگر مریم نواز کامیاب ہوگئیں اور اس کے نتیجے میں نون لیگ پنجاب میں قابل ذکر سیٹیں جیت جاتی ہے تو پھر پارٹی پر ان کی گرفت مزید مضبوط ہو جائے گی اور ان کو نیا عہدہ دینے کے مخالف پارٹی ’’انکلز‘‘ کے اعتراضات بھی دم توڑ جائیں گے۔ تاہم اگر انہیں پارٹی کی تنظیم نو میں ناکامی ہوتی ہے اور وہ اپنے پارٹی کنونشنز اور جلسے جلوسوں کو نون لیگ کی جیت میں تبدیل نہیں کر پاتیں تو ان کے سیاسی مستقبل کو شدید دھچکا لگے گا اور پارٹی کے ’’انکلز‘‘ کا موقف درست قرار پائے گا۔ لہٰذا پارٹی کے بری طرح متاثر ہونے والے ووٹ بینک کی بحالی مریم نواز کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں