ٹیرین وائٹ کیس کا خوف عمران خان کے ’’انقلاب ‘‘ پر حاوی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے ایک حلقے کے ضمنی انتخاب سے راہ فرار اور اب دیگر 33 حلقوں سے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان اسی خوف کا شاخسانہ ہے۔
پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ایک سے زائد ذرائع نے ان رپورٹس کی تصدیق کی ہے کہ نااہلی کے خوف کے سبب چیئرمین پی ٹی آئی نے 33 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے فیصلے پر یوٹرن لیا۔ کیونکہ پارٹی کے وکلا نے انہیں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اگر ضمنی الیکشن لڑنے کے لئے وہ ماضی کی طرح کاغذات نامزدگی میں ٹیرین وائٹ کا نام گول کر جاتے ہیں یا اس بار ذکر کر دیتے ہیں تو دونوں صورتوں میں ان کی ممکنہ نااہلی کا خطرہ بڑھ جائے گا ، چونکہ اس وقت یہ ایشو عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو مشورہ دیا گیا ہے کہ فی الحال وہ کوئی بھی الیکشن لڑنے سے گریز کریں اور ٹیرین وائٹ کیس کی دھول بیٹھنے کا انتظار کریں۔ چندروز پہلے تک کپتان کی قانونی ٹیم کے بعض ارکان کا خیال تھا کہ یہ کیس قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں گم ہو جائے گا۔ یوں عمران خان آئندہ عام انتخابات میں دھڑلے سے اتر سکیں گے۔ لیکن اب اس سوچ پر تفکرات کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا سبب گذشتہ سماعت کے موقع پر ہونے والی اہم پیش رفت ہے۔
یہاں یہ یاد دہانی کراتے چلیں کہ عمران خان نے اپنی نااہلی کی درخواست کے خلاف وکلا کی مشاورت سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جو تحریری جواب داخل کرایا اس میں اس کیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’اب چونکہ وہ رکن اسمبلی یا عوامی عہدیدار نہیں رہے اس لئے ان کی نااہلی کی درخواست قابل سماعت نہیں۔ لہذا عدالت درخواست کو مسترد کردے‘‘ مطلب یہ کہ اپنی مبینہ بیٹی کے بارے میں اٹھائے گئے سوال پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔
قبل ازیں عمران خان نے راجن پور سے قومی اسمبلی کے صرف ایک حلقے کے ضمنی الیکشن سے اپنا نام واپس لیا تھا ، جو 26 فروری کو شیڈول ہے۔ پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ اس وقت تک عمران خان کی جانب سے اٹھائے گئے نکات پر عدالت نااہلی کی درخواست خارج کردے گی۔
یوں وہ پہلے راجن پور کا الیکشن لڑیں گے اور پھر 33 حلقوں کے ضمنی انتخابات کی تیاری کریں گے۔ تاہم جب جمعرات کو ہونے والی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے یہ اعلان کیا کہ اب اس معاملے کو لارجر بینچ سنے گا تو پی ٹی آئی قیادت کے طوطے اڑ گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ کے تیور کو دیکھتے ہوئے قانونی ٹیم نے عمران خان کو دیگر 33 سیٹوں پر ضمنی الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی واپس لینے کا مشورہ دیا، کیونکہ ان کے خیال میں اب یہ معاملہ طول پکڑے گا۔ ان 33 سیٹوں پر انیس مارچ کو پولنگ ہوگی۔
واضح رہے کہ عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواست کی اب تک سات سے زیادہ سماعتیں ہوچکی ہیں۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ ابھی تک درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔
نو فروری کی سماعت میں امکان ہے کہ لارجر بنچ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کردے گا، یا
اس جانب پیش رفت ہوگی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کیس کے میرٹ کے بجائے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ وہ اپنے جواب میں یہ کہہ کر کہ ’’اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس سمیت بعض دیگر جج ماضی میں اس کیس کو سننے سے معذرت کرچکے ہیں۔ لہٰذا وہ دوبارہ یہ کیس نہیں سن سکتے۔‘‘ اس سوال کا جواب دینے سے پہلو تہی کر رہے ہیں کہ ٹیرین وائٹ ان کی بیٹی ہے یا نہیں۔ یعنی امیر المومنین حضرت عمرؓ کے کردار کی مثالیں دینے والا اور ریاست مدینہ کا دعویدار ایک آئینی و شرعی سوال سے بھاگ رہا ہے۔ شرعی اس معنوں میں کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی، ٹیرین وائٹ کو اپنی بیٹی تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا ٹیرین کی والدہ سیتا وائٹ سے ان کی شادی ہوئی تھی یا نہیں؟
اس کیس کی باریکیوں سے واقف ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عمران خان یہ کہہ کر ٹیرین وائٹ کیس سے دامن نہیں بچاسکتے کہ پہلے اس کیس کو سننے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعض ججز انکار کرچکے ہیں۔ حالانکہ ماضی کے مقابلے میں یہ کیس اب اس لئے مضبوط ہوچکا ہے کہ پہلے اس کیس کے حوالے سے مصدقہ دستاویزات دستیاب نہیں تھیں، جو عمران خان اور جمائما خان کی جانب سے امریکی عدالت میں حلفیہ بیان کے طور پر جمع کرائی گئیں اور اب منظر عام پر آچکی ہیں۔درخواست گزار ساجد کے وکلا نے ان دستاویزات کو اپنے کیس کا حصہ بھی بنایا ہے۔
عمران خان اور جمائما نے اپنے دستخطوں سے امریکی عدالت میں جمع کرائے گئے حلفیہ بیانات میں کہا تھا کہ ٹیرین کی سرپرستی اس کی خالہ کے سپرد کئے جانے پر دونوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ اس کیس کی سماعت کے دوران یقیناً یہ سوال اٹھے گا کہ یہ حلفیہ اجازت عمران اور جمائما نے کس حیثیت میں دی تھی۔ ان کا ٹیرین سے کیا رشتہ ہے؟ والدین یا انتہائی قریبی عزیز ہی اس طرح کی اجازت دے سکتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی عدالت سے مصدقہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد اب عمران خان کا اس کیس سے جان چھڑانا مشکل ہوچکا ہے۔ ابھی اگر وہ الیکشن میں حصہ نہ لے کر تکنیکی طورپر بچت کا راستہ ڈھونڈ بھی لیتے ہیں تو عام انتخابات میں یا کبھی نہ کبھی وہ الیکشن لڑیں گے اور منتخب بھی ہوں گے۔ اس وقت پھر کوئی شہری اس نوعیت کی درخواست عدالت میں جمع کراسکتا ہے کہ ایک منتخب عوامی نمائندے نے کاغذات نامزدگی میں اپنے تمام بچوں کے نام کیوں ظاہر نہیں کئے۔ لہٰذا وہ صادق و امین نہیں رہا اور نااہلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی زد میں آتا ہے۔ یوں عمران خان کی نااہلی سے متعلق ٹیرین وائٹ کیس اب ہمیشہ کے لئے ایک لٹکتی تلوار بن چکا ہے۔